اسلام آباد: رہنما پیپلز پارٹی خورشید شاہ نے نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے لوگوں نے مجھ سے صدارتی نظام سے متعلق بات کی۔ اسد عمر کو ہٹانے میں باقر رضا کا کردار رہا۔ باقر رضا نے اسد عمر کے رویے سے متعلق حکومت کو بتایا۔ آئی ایم ایف کی تجویز پر حفیظ شیخ کو مشیر خزانہ لگایا گیا۔ آئی ایم ایف میں جانے کا آغاز ڈکٹیٹر کے دور سے ہوا۔ سسٹم بہتر نہ ہونے سے مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا۔
بے نظیر قتل کیس پر ہماری حکومت میں کام ہونا چاہئے تھا لیکن نہیں ہوا۔ رانا تنویر کے متعلق بات ابھی فائنل نہیں ہوئی۔ دوسری جانب خبر یہ ہے ن لیگ کے رہنما رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ شہباز شریف نے پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کی سربراہی سے ابھی استعفیٰ نہیں دیا ہے ۔قومی اسمبلی میں شاہ محمود قریشی نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے انہیں اس کمیٹی بنانے کیلئے حمایت کی تھی ۔ شہباز شریف نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پی اے سی کی چیئرمین شپ سے استعفیٰ نہیں دیا، اس کے ساتھ انہوں نے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سے دریافت کیا کہ ’کیا آپ کو ان کا استعفیٰ موصول ہوا؟‘۔ جس پر سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ نہیں مجھے میڈیا کے ذریعے معلوم ہواہے کہ شہبازشریف نے پی اے سی کی سربراہی چھوڑی دی ہے۔
رانا ثنااللہ نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ وزیر خارجہ کو شہباز شریف کے استعفیٰ کے بارے میں کیسے معلوم ہوا کیا ان کی شہباز شریف سے فون پر بات چیت ہوئی تھی؟ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں اس بات کا فیصلہ ہوا تھا کہ میاں شہباز شریف کو پی اے سی کے چیئرمین شپ نہیں سنبھالنی چاہیے کیوں کہ وہ ناگزیر وجوہات کی بنا پر کمیٹی کو وقت نہیں دے سکتے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پارلیمانی کمیٹی نے اس فیصلے کو حتمی شکل دینے کے لیے شہباز شریف کو بھجوا دیا ہے لیکن انہوں نے اب تک اس حوالے سے فیصلہ نہیں کیا کہ آیا وہ عہدے سے دستبرداری اختیار کریں گے یا یہ عہدہ اپنے پاس ہی رکھیں گے۔