کشمیر میں تحریک آزادی، قیام پاکستان سے تقریباً دو عشرے پہلے شروع ہوئی، کشمیری ڈوگرہ راج کے ظلم و ستم کے خلاف اور قوم کی آزادی کیلئے 1931سے سرگرم ہیں، تب سے آج تک یہ ہنڈیا چولہے پر چڑھتی ہے، کبھی یہ تحریک دھیمی آنچ میں جلتی اور کبھی جب ظلم کی چکی تیز چلتی ہے تو یہ بھی ابلنے لگتی ہے اور ہنڈیا کے کناروں سے بہہ نکلتی ہے۔ گزشتہ ستائیس برس سے کشمیریوں کو ایک پل چین نہیں، وہ دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر کی تمام انسانی بستیاں گزشتہ عشروں میں جبروغلامی سے نجات پاکر آزادی کی فضا میں پھل رہی ہیں، صرف کشمیر اور فلسطین ہی ایسے بدقسمت ہیں جن کی آج بھی جبر و قہر کے سایہ میں بسر ہوتی ہے۔ وادیٔ جنت نظیر پچھلے ستائیس برس سے ساڑھے سات لاکھ بھارتی فوجیوں کے بوٹوں تلے کراہ رہی ہے لیکن گزشتہ 77 دنوں میں دنیا کشمیر میں بربریت اور ظلم و ستم کا ایک ناقابل مثال دور دیکھ رہی ہے، گیارہ ہفتوں سے وادی میں مسلسل کرفیو نافذ ہے، نمازیں پڑھنے کیلئے مسجد جانا تو دور کی بات نماز جمعہ بھی موقوف ہو گئی اور عید کی نماز اور قربانی کیلئے بھی لوگوں کو گھروں سے باہر نکلنے نہیں دیا گیا، ایک سو سے زیادہ نوجوان اور معصوم بچے بھارتی فوج کی گولیوں کا نشانہ بن کر شہید اور ایک ہزار سے زیادہ نوعمر چھرے والی بندوقوں کے حملے کی وجہ سے بینائی سے محروم ہو چکے ہیں، زخمیوں کی تعداد حد اور حساب سے زیادہ ہے، عورتوں کی عصمت دری کے واقعات روز کا معمول ہیں اور وہ بھی بھارتی فوج کے بہادر فوجیوں کے ہاتھوں۔ ان واقعات کے ردعمل میں گزشتہ روز بارہ مولا میں بھارتی فوج کے بریگیڈ ہیڈکوارٹر پر حملہ کرکے 17فوجی اہلکاروں کو ہلاک اور 20کو زخمی کردیا، بہت سی تنصیبات کو نقصان پہنچایا، ایک بڑے اسلحہ اور گولہ بارود کے ذخیرے کو آگ لگا دی۔ چاروں حملہ آور مقامی کشمیری نوجوان خود بھی لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔
جن حالات سے مقبوضہ کشمیر ان دنوں گزر رہا ہے، اس میں ایسے حملے کی توقع کی جانا چاہئے تھی بلکہ اس طرح کے فدائی حملوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ انتہاپسند بھارتی حکومت نے گزشتہ گیارہ ہفتوں سے ’’برہان وانی‘‘ کی شہادت کے بعد کشمیریوں کے ردعمل کو دبانے کیلئے جو ناقابل مثال ظلم و ستم بلکہ وحشت وبربریت کا مظاہرہ کیا، کشمیر کی مسلمان آبادیوں کے خون سے ہولی کھیلی، ان کے نوعمر نہتے بچوں پر چھرے کی بندوقوں سے حملہ کرکے ہزاروں کی تعداد کو ساری عمر کیلئے اندھا اور معذور بنا ڈالا۔77 دنوں سے کرفیو کی وجہ سے سارے لوگ بے آب و دانہ گھروں میں محصور کر دیئے گئے ہیں جن کے پاس کھانے کو روٹی نہ پینے کو پانی، بچوں کیلئے دودھ نہ بوڑھوں کیلئے غذا، سکول جانے کا موقع، نہ ہسپتال تک رسائی۔ تو ان حالات میں جوان خون جس میں غیرت کا عنصر بھی ہے، یہ سب کچھ ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کر سکتا، وہ دشمن کو ساتھ لے کر جان سے گزر جانے کو ذلت و بے بسی کی زندگی پر ترجیح دے گا۔ بھارتی بریگیڈ ہیڈکوارٹر پر یہ حملہ ان پیداکردہ حالات کا نتیجہ ہے جو انتہاپسند مودی سرکار اور اس کی فوج نے پیدا کر رکھے ہیں، ان حالات کو بدلا نہ گیا تو یہ پرامن سیاسی تحریک ایک مرتبہ پھر انتہا اور تشدد کا راستہ اختیار کر لے گی اور اب کے بار بھارتی سرکار کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے کہ ’’چند دنوں میں بھارتی سورمائوں نے ہر گھر میں صف ماتم کا اہتمام کر ڈالا ہے، کون سا گھر ہے جہاں شہید کا لاشہ نہیں اٹھایا گیا یا ایک نابینا معذور چارپائی سے نہیں لگ گیا یا کسی نیم روشن کونے میں عصمت و عفت کی بے گور و کفن لاش نہ رکھی ہو۔
وادی میں فوج نے جس طرح کے حالات پیدا کر دیئے ہیں اس کے بعد امن کی امید رکھنا نرم لفظوں میں بھی حماقت ہی کہا جائے گا۔ ان حالات میں یہ حملہ بالکل متوقع تھا اور دہلی سرکار کو ایسے بہت سے حملوں کی امید کے ساتھ تیار رہنا چاہئے۔ مودی سرکار کی طرف سے ان حملوں کا الزام پاکستان پر لگایا جانا ایک اور حماقت ہے، بڑی حماقت۔ جس ملک کی سرکار اور فوج کی قیادت ’’مودی‘‘ سے انتہا پسند کے ہاتھ میں ہوگی، جو گولیاں بو رہے اور گالیاں کاشت کرتے ہیں تو کیا وہاں امن کے پھول کھلیں یا گنگناتے چشمے ابل پڑیں گے۔ تشدد، ظلم و بے رحمی، جوابی خون ریزی کو پیدا کرتی ہے اور وہ خون ریزی پیدا ہو چکی ہے، یہ نہ صرف بھارت کے اندر بوئی گئی ہے بلکہ بھارت کے اندر کاٹی بھی جائے گی۔ موجودہ حالات میں جب پاکستان کے وزیراعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کیلئے امریکا کے شہر نیویارک کیلئے روانہ ہو رہے تھے عین ان لمحوں میں بارہ مولا کے بریگیڈ ہیڈکوارٹر پر حملہ پاکستان کے سوا کسی کے مفاد میں بھی ہو سکتا ہے مگر پاکستان کے مفاد میں ہرگز نہیں۔ جس طرح کے حالات کشمیر میں پیدا کر دیئے گئے ہیں ان کی موجودگی میں پاکستان کی طرف سے ان کی اخلاقی، سفارتی اور سیاسی مدد ہی کافی ہے، باقی کام بھارتی فوج کی بربریت اور کشمیریوں کی جانبازی خود پورا کر دے گی۔
یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ حملہ پاکستان کی طرف سے نہیں کروایا گیا، اس لئے کہ اب پوری دنیا اور انسانی حقوق کے ادارے کشمیر کی طرف متوجہ ہو چکے ہیں اور بھارتی سرکار عالمی رائے عامہ کی تنقید کی زد میں ہے۔ ان حالات میں پاکستان کو سرخ کپڑا اپنے ہاتھ میں لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ جوں جوں کشمیر سلگتا رہے گا اور یہ میدان جنگ کیلئے ہموار ہوگا تو عالمی دہشت گرد اور انتہا پسند تنظیمیں بھی ادھر متوجہ ہو جائیں گی اور پنجاب میں سکھوں کی آرزوئیں بھی کروٹ لے کر بیدار ہوں گی تو بھارت کو ناقابل برداشت حالات و صورتحال سے نمٹنا ہوگا۔ سوشل میڈیا اور بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ’’بارہ مولا‘‘ ہیڈکوارٹر پر حملہ بھی بمبئی حملوں، دہلی میں پارلیمنٹ پر دھاوا اور سمجھوتہ ایکسپریس کی طرح بھارت کا اپنا سٹیج کردہ ڈرامہ ہے لیکن یہ تجزیہ بھی نادرست معلوم ہوتاہے، بالکل اسی طرح جس طرح پاکستان کو ملوث کرنے کا خیال نادرست ہے۔ انڈیا کی سیاسی حکومت اس طرح کا ڈرامہ اپنی فوج کے جوانوں کے ساتھ کھیلنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس کے سارے ڈراموں کا تجزیہ کیا جائے جو اوپر بیان ہوئے ہیں تو ان میں زیادہ تر غیرملکی ہلاک ہوئے، سمجھوتہ ایکسپریس میں پاکستانیوں کو جلا ڈالا، بمبئی حملوں میں اسرائیلی، امریکی اور یورپین ہلاک ہوئے اور پاکستان کی طرف اشارہ کر کے ان ملکوں کے تعلقات بگاڑنے کے ساتھ تشہیر کے بہتر مواقع پیدا کئے گئے، پارلیمنٹ حملہ کا ڈرامہ تو صرف پراپیگنڈے اور تشہیری جارحیت کیلئے تھا۔ لہٰذا کشمیر میں فوجیوں کی ہلاکت کو ان حملوں کے ساتھ نہیں جوڑا جاسکتا۔ حالیہ حملے کو کشمیری نوجوانوں کا فطری ردعمل سمجھا جانا زیادہ قرین قیاس ہے
بلکہ کشمیری نوجوان اگر اس طرح کا ردعمل نہ دیتے تو زیادہ حیران کن اور غیرفطری محسوس ہوتا۔ کون سا نوجوان ہے جو اپنے ماں باپ کی بے بسی اور اپنے معصوم بہن بھائیوں کو بے گناہ ’’خون میں لتھڑا‘‘ دیکھ کر پرسکون رہ سکتا ہے۔ یہ کشمیر کے نوجوانوں کا فطری ردعمل ہے۔ آنے والے دنوں میں مقبوضہ کشمیر کے اندر مسلح تحریک زور پکڑتی دکھائی دیتی ہے۔
سنتے ہیں کہ بارہ مولا فوجی ہیڈکوارٹر پر حملے کے بعد بھارت آزاد کشمیر میں محدود حملے پر غور کر رہا ہے؟ ؎
ایک خیال است، محال است و جنوں
پاکستان کے خلاف حملہ بھارت کا دن کو دیکھا جانے والا خواب ہے، وہ کبھی پاکستان پر چڑھائی کی ہمت نہیں کر سکتا، کبھی نہیں۔ بھارت کی ہر ’’ڈکٹیرائن‘‘ کا ایک ہی جواب ہے’’آئندہ برپا ہونے والی کوئی بھی پاک بھارت جنگ، بھارتی سرزمین پر لڑی جائے گی‘‘۔
بشکریہ جنگ