عام حالات میں آرائش اور دلکشی سے محروم پانیلی میں اس شادی کے باعث ایک جشن کا سماں تھا۔ جیسے گونڈل کے دیہات میں سے یہ گاؤں ایک روز خواب سے بیدار ہوتے ہی دلہن کی طرح سج گیا ہو منگنی کے نتیجے میں بعدازاں ان کی شادی ہوئی مگر اس سے قبل تیس جنوری 1892ء کو انہیں سندھ کو خیرآباد کہنا پڑا جب کہ وہ انگلش کی پانچویں جماعت میں تھے، سکول کے ریکارڈ میں اس واقعہ کا اندراج یوں ملتا ہے: ’’محمد علی جناح بھائی اپنی شادی کے سلسلے میں جانے کے لیے سکول چھوڑ گئے۔‘‘ نو اگست 1947ء کو گورنر جنرل کی حیثیت سے اپنی پہلی تقریر کے دوران انہوں نے اپنے بچپن کی سہانی یادیں تازہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہاں میں کراچی میں پیدا ہوا تھا اور لڑکپن میں کراچی ہی کی ریت پر گولیاں کھیلا کرتا تھا۔ میں نے سکول کی تعلیم کراچی میں حاصل کی تھی۔‘‘ انہوں نے اپنی کوششوں سے یہ تجربہ حاصل کیا اور اسی لیے انہوں نے دوسروں کی جانب سے یہ کرو اور یہ نہ کرو یا ان کے لیے کیا اچھا ہے اور کیا اچھا نہیں ہے جیسے احکامات قبول کرنے سے ہمیشہ انکار کیا۔ یہ عادت جو ان میں بچپن ہی سے راسخ ہو چکی تھی ان کے ذہن کے سیاسی ارتقا کے ہیجان انگیز زمانے میں بھی ان کی رہنمائی کرتی رہی۔
مگر یہ تضاد انتہائی حیرت کا باعث ہے کہ شریکِ حیات کے انتخاب کے معاملے میں پسند اور ناپسند کا اختیار انہوں نے مکمل طور پر اپنی والدہ کو دے دیا۔ میرے والد، والدہ، محمد علی، پوفی مان بائی (پھوپھی) اور کچھ دوسرے رشتہ دار کراچی سے بحری راستے سے ویراوال روانہ ہوئے۔ وہاں سے محمد علی کی بارات بیل گاڑیوں کے ذریعے ہمارے آبائی گاؤں پانیلی پہنچی۔ فاصلے غیر متوقع اور دلچسپ کہانیوں کو جنم دیا کرتے ہیں۔ چنانچہ پانیلی کے سادہ لوح دیہاتیوں کے ذہنوں میں بھی یہ بات سمائی ہوئی تھی کہ جناح بھائی کراچی جیسے شہر میں جا کر کروڑ پتی بن چکے ہیں، وہاں سے وہ یورپ اور مشرق بعید کے ممالک کے ساتھ تجارت کرتے ہیں اور ان کا مال سمندروں میں بادبانوں کے بغیر چلنے والے جہازوں کے ذریعے ان دور دراز ملکوں کو بھیجا جاتا ہے اور یہ کہ جناح بھائی کا گھر بہت بڑا ہے۔ سواری کے لیے گاڑیاں گھوڑے ہیں۔ جی ہاں یہ سب ان سادہ لوگوں کی خیال آرائی اور وہم تھا کہ جناح بھائی نے کراچی میں بے پناہ دولت کمائی تھی۔
پونجا گھرانے کو فخر تھا کہ (ان کی) ایک بڑی بارات پانیلی آ رہی ہے۔ میرے والد ان سب باتوں سے آگاہ تھے۔ وہ اپنے اہل خانہ اور اپنے گاؤں کے لوگوں کو مایوس نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ اپنے ساتھ اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور پانیلی میں آباد ہر گھرانے کے سربراہ کے لیے بہت سے تحائف لائے تھے۔ جب ان لوگوں کی تعداد اور ان کے لیے لائے جانے والے تحائف کا مقابلہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ تحائف کی تعداد بہت کم تھی۔ اس پر میرے والد نے اپنے کزن کو مزید تحائف لانے کے لیے گونڈل بھیجا۔ وہ اپنے ساتھ اچھی خاصی تعداد میں گولے اور پٹاخے بھی لائے تاکہ خواب آلود پانیلی ان کی گرج سے گونج اٹھے اور آنکھیں چندھیا دینے والی ان کی روشنی اردگرد میلوں دور آسمانوں پر بکھر جائے۔ اس زمانے میں بینڈ باجے نہیں ہوا کرتے تھے جنہیں پانیلی کی گلیوں میں بجا کر ایک امیر آدمی کے بیٹے کی شادی کا فخریہ اعلان کیا جا تا۔ تاہم اس موقع کے لیے گونڈل سے نقارے بجانے والوں کو بلایا گیا تھا جو نیم دائرے کی شکل کے نقاروں کو دو پتلی چھڑیوں کی مدد سے بجا رہے تھے۔
نقاروں کے ساتھ مزید کوئی ساز شامل نہیں تھا۔ مگر ان کی آواز اور بازگشت ایسی تھی کہ اس سے پانیلی اور اس کے اردگرد کا علاقہ گونج اٹھا تھا۔ گاؤں کی عورتیں رسم کے مطابق کئی روز سے تحائف، کپڑے، زیورات اور مٹھائیاں وغیرہ دلہن کے گھر لا رہی تھیں۔ نقارے بجانے والے بارات کے آگے آگے تھے۔ جب کہ خواتین شادی بیاہ کے گیت گاتیں اور رسم کے مطابق راستے میں شاول بکھیرتیں، آہستہ آہستہ دلہن کی جانب رواں دواں رہتیں۔ ایک ہفتے تک گاؤں کے لوگ دوپہر اور شام کے اجتماعی کھانوں میں مدعو رہے۔ عام حالات میں آرائش اور دلکشی سے محروم پانیلی میں اس شادی کے باعث ایک جشن کا سماں تھا۔ جیسے گونڈل کے دیہات میں سے یہ گاؤں ایک روز خواب سے بیدار ہوتے ہی دلہن کی طرح سج گیا ہو۔ میرے والد کو اخراجات کی کوئی پروا نہیں تھی۔
آخر یہ انکے پہلوٹھی کے بیٹے کی شادی تھی اور کسے معلوم تھا کہ انکے دوسرے بچوں کی شادیاں کراچی میں ہونا تھیں یا ممبئی میں۔ پوری سج دھج سے کی جانے والی شادی سے ان کے اپنے گاؤں کے لوگ بے حد متاثر ہوئے۔ والد کے کراچی واپس چلے جانے کے بعد پانیلی کے لوگوں نے کم از کم اتنا ضرور یاد رکھا ہو گا کہ اس گاؤں کی گلیوں میں کھیلنے والے دوسرے بچوں کی طرح عام سے جناح بھائی اب ایک بڑے شہر کے بڑے تاجر بن چکے تھے۔ جشن کے اس موقع پر دولہا کے خیالات کیا تھے۔ اس کا صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ ان کی عمر بمشکل سولہ برس تھی اور ان کی شادی کی جارہی تھی۔ انہوں نے اپنی بہنوں اور کزنز کے علاوہ اس عمر کی کسی لڑکی سے کبھی بات تک نہیں کی تھی۔ انہوں نے اس سے پہلے اپنی دلہن کی شکل تک نہیں دیکھی تھی۔ تاہم وہ اتنا ضرور جانتے تھے کہ انہوں نے اپنے طرز زندگی سے انحراف ضرور کیا ہے۔ وہ اپنے فیصلے خود کرنے کے مخصوص انداز سے ہٹ گئے تھے۔ وہ اپنی والدہ کی صورت میں تقدیر کے سامنے بے بس ہو گئے تھے جنہوں نے ان کی شادی ایمن بائی سے کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔