تحریر : انجم صحرائی
وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے جنوبی پنجاب کے مہان سرائیکی شاعر شاکر شجاع آبادی کو مفت علاج فراہم کئے جانے کی ہدایات جاری کر دیں اور وزیراعظم کی ہدایات کی روشنی میں شاکر شجاع آبادی کو نشتر ہسپتال میں داخل کر لیا گیا ہے، شاکر شجاع آبادی کی بیماری کے بارے چیف جسٹس پاکستان نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے حکومت کو انہیں مفت علاج و معالجہ کی سہولیات فراہم کرنے کا حکم دیا تھا مجھے یہ خبر سن کر شاکر کا یہ شعر بے ساختہ یاد آ گیا۔ تیڈے فارغ وقت دے شغل جو ہائیں جیویں دل آ کھی اوویں رول ودا۔ ستم ظریفی ہے کہ کیسی عجیب نگری او رکیسے عجیب سماج میں رہ رہے ہیں ہم بھی۔ کہ ایک انسان کو علاج چا ہیئے تو اسے علاج کی سہو لت کی فراہمی کے لئے چیف جسٹس پا کستان کو از خود نو ٹس لینا پڑتا ہے عدالت عظمی کے نو ٹس لینے اور وزیر اعظم کی ہدا یت پر تب ہسپتا لوں کے در وازے وا ہو تے ہیں انسا نوں پر ۔ علاج و معالجہ کی وہ سہو لت جو ریاست پر قرض ہے اس کے شہر یوں کا ۔ اس کے حصول کے لئے بھی ایسے تا ز یا نے اس سے بڑا ظلم اور اس سے بڑی نا انصا فی کیا ہو گی ۔ شا کر شجاع آ بادی کی بیما ری پر عزت مآب چیف جسٹس پا کستان کا از خود نو ٹس یہ ظا ہر کرتا ہے کہ انصاف ابھی سو یا نہیں مگر سو چنا یہ ہے کہ جس اند ھیر نگری میں قتل کی ایف آئی کے لئے دو دو مہینوں کے دھرنے دینے پڑیں۔
مدعی کہے کہ آرمی چیف کی مداخلت سے اس کی داد رسی ہو ئے اور قتل کی ایف آئی آر درج ہو ئی اور مدعی بھی وہ ہو جس کے لا کھوں فا لور اس کے ایک اشا رے پر قر با نی دینے کے لئے اپنی جانیں ہتھیلی پر لئے پھر تے ہوں اور ایک مہان شا عر کے علاج کے لئے عدا لت عظمی کو زنجیر عدل ہلا کر حاکمان وقت کو جگا نا پڑے ایسے میں ایک عام آ دمی کیسے جیتا ہو گا کاش اس کا بھی کو ئی از خود نو ٹس ۔ اللہ جز ائے خیر دے اس منصف اعلی کو کہ جنہوں نے از خود نو ٹس لے کر حکومت کو احساس دلا دیا کہ شاکر کے علاج کی ذمہ داری بھی اس کی ہے اگر ایسا نہ ہو تا تو لگتا ہے کہ ہمارے خادم اعلی کے مصاحبین تو سبھی سو ئے ہو ئے ہیں نہ شجاع آباد کے کسی ڈی سی او کوشاکر کی بیماری کا پتہ چلا اور نہ ہی کسی ایم این اے ۔ ایم پی اے کو شا کر کی بیما ری کی بھنک پڑی کہ یہ تو ان سیا سی اور انتظامی ابو الہلو لوں کا مو ضوع ہی نہیں اور رہے ادب ، صحافت اور وسیب کے ور ثے کے سکہ بند وہ مہا مجاور جو بڑے بڑے ادبی آ ستا نوں کے اجا رہ دار بنے اقتدارو اختیار کی منڈی میں ہر چیز ملے گی ایک آ نا کی آواز لگا تے جھولی چک بنے آئینے میں اپنے ہی آپ کو سنوارتے نظر آ تے ہیں انہیں بھی اپنے آپ کے علا وہ گردو پیش میں کچھ نظر نہیں آ تا نہ ہی شا کر شجا ع آبادی اور نہ ہی بر کت اعوان۔
بر کت اعوان بھی لیہ کا شا کر شجاع آبا دی تھا ۔ شا عر تو نہیں تھا مگر قدرت نے اسے تحریر کی صلا حیت سے ما لا مال کیا تھا ۔ بر کت اعوان زند گی بھر سرا ئیکی وسیب کی جنگ لڑتا رہا ۔ حالا نکہ وہ سرا ئیکی نہیں تھا ۔ بر کت اعوان سرا ئیکی وسیب کی چلتی پھر تی تا ریخ تھا اس نے اپنی زند گی میں جتنا لکھا سرا ئیکی وسیب با رے لکھا اس کی داستا نیں اسکے مضا مین اس کے مقا لات سبھی سرا ئیکی ادب ، سرا ئیکی وسیب اور سرا ئیکی روایات کے گرد گھو متے تھے وہ ایک سچا سرا ئیکی تھا ۔ میرا اس سے پیار تھا مگر یا را نہ نہیں پھر ایک دن مجھے پتہ چلا کہ اس نے ایک پا ر ٹی جوائن کر لی ہے جو سرا ئیکی بنیا دوں پر صو بہ بنا نے کی با ت کر تی ہے اس پا ر ٹی میں شمو لیت کے بعد بر کت اعوان کے خیالات زیا دہ شدت پسند ہو گئے یہاں تک کہ ان کے لہجے میں قیام پا کستان کے بعد ہجرت کر کے پا کستان آ نے والے مہا جرین بارے خا صی تلخی آ گئی یہ تلخی اتنی بڑھی کہ اسی زما نے میں میرے اور بر کت اعوان کے درمیان کالم جواب کالم کی ایک قلمی جنگ بھی ہو ئی روز نا مہ داور کے صفحات میں ۔ لسا نی بنیا دوں پر اسی شدت پسندی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم ایک دوسرے سے دور ہو تے چلے گئے ۔ پھر مجھے اس کی بیماری کا پتہ چلا اور میں اس کی عیادت کر نے بر کت اعوان کے گھر گیا اپنے نظر یات کے حوالے سے اس کے لہجے کی تلخی پہلے جیسی ہی تھی ۔ پھر پتہ چلا کہ ڈاکٹرز نے اس کی ٹا نگ کاٹ دی ہے مجھے بہت افسو س ہوا میں اس سے ملنے گیا مگر ملا قات نہ ہو سکی پھر ایک دن شا ہد میرے دفتر آ یا اور نجھے ایک کالم کا مسودہ دیا میں نے دیکھا تو یہ ایک کالم تھا جس کا عنوان تھا انجم صحرائی۔
مجھے بڑی خو شگوار حیرت بھی ہوئی اور فخر بھی ۔کہ بر کت اعوان نے مجھ پہ لکھا ۔ بر کت اعوان کی یہ تحریر بھی روز نامہ داور میں شا ئع ہو ئی ۔ ایک مدت کے بعد گذرے سال یو م آزادی سے ایک دن پہلے13 اگست کی شام کو شا ہد کا فون آیا اور کہنے لگا کہ چا چا جی ، ابو کی خوا ہش ہے کہ آپ کل 14اگست کے دن یو م آزادی ان کے ساتھ سلیبریٹ کریں ۔ میں نے کہا کیوں نہیں میں کتنے بجے آ جا ئوں ؟شا ہد بو لا ابا جی کہتے ہیں تم نے اپنے چا چا کو خود لے کر آ نا ہے جس وقت آپ کہیں میں لینے آ جا ئوں گا آپ کو ۔ میں نے کہا نہیں یار میں خود آ جا ئوں گا تم تکلیف نہ کرو میں کل دس بجے آ جا ئوں گا ۔ میں اگلے دن مقررہ وقت پر برکت اعوان کے گھر پہنچ گیا جو نہی میں نے بیل بجا ئی شاہد نے دروازہ کھول دیا لگتا تھا کہ جیسے میرے انتظار ہی میں تھا وہ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا با با کتنی بار آپ کا پو چھ چکے ہیں میں اس کے ساتھ کمرے میں دا خل ہوا تو بستر پر بیٹھے بر کت اعوان نے اپنی با ہیں پھیلا کر اپنے گلے لگا لیا۔
اس کی آ نکھیں پر نم اور آواز گلو گیر تھی ۔ کہنے لگے بھائی انجم آج میرا دل چا ہا کہ میں آج آپ سے ملوں ۔ میں یوم پا کستان منا نا چا ہتا تھا شا ید یہ میری زند گی کا آخری یو م پا کستان ہو یار مجھے یہ پا کستان یہ وسیب بڑا عزیز ہے تم مہا جروں نے تو بڑی قر با نیاں دی ہیں پا کستان بنا نے کے لئے ، یار میں غلطی پر تھا جو تمہیں غیر سمجھتا رہا تم ہی تو میرے ہو اور یہ پا کستان بھی میرا ہے اسی لئے میں نے تمہا را ا نتخاب کیا ہے کہ میں اور تم مل کر یوم پا کستان منا ئیں ، اوئے شا ہد جا جا کر کیک اور چا ئے اور بر فی لا ، ہم آج مل کر یوم پا کستان بنا ئیں گے میں کچھ نہیں بو لا میرے پاس بو لنے کو تھا ہی کچھ نہیں وہ سب جو مجھے بو لنا چا ہئیے تھا بر کت اعوان بول رہا تھا ۔ پا کستان کی با تیں کر رہا تھا پا کستا نیت کی با تیں کر رہا تھا ۔ لسا نیت ، فروعات اور صو با ئیت کی نفر توں کے خلاف اپنے جذ بات کا اظہار کر رہا تھا میں کچھ نہیں بو لا صرف سنتا رہا ۔۔ کا فی گھنٹوں کے بعد جب وہ تھک گیا تو میں نے بر کت اعوان کا ما تھا چو ما اور اجازت چا ہی ۔ چند دن ہی گذ رے تھے کہ رات کے چار بجے ہوں گے شا ہد کی کال آ ئی میں نے ریسیو کی تو اس نے رو تی آواز میںکہا چا چا جی ۔۔ میں یتیم ہو گیا ہوں۔
غالبا سو ئم کے بعد پرو فیسر گل اعوان اور دیگر دو ستوں نے مر جان ہو ٹل میں ایک تعز یتی ریفرنس کا اہتمام کیا ۔ جس میں رانا محمد اعجاز ، پرو فیسر نواز صدیقی ، ڈاکٹر پرو فیسر مزمل ، الفت ملغا نی اور مر حوم کے بھا ئی میجر (ر ) غلام نبی اعوان نے اپنے خیا لا ت کا اظہار کیا ۔ مجھے بھی وہاں مر حوم بارے چند تعز یتی جملے کہنے کا اعزاز حا صل ہوا ۔ میں نے یہ سا ری کتھا وہاں بھی سنا ئی اور وہاں مو جود دانشوروں سے یہ سوال کیا کہ کیا کو ئی بتا سکتا ہے کہ بر کت اعوان کے خیا لات میں یہ تبدیلی کیسے آ ئی ، سب چپ رہے اور میں بھی خا موش رہا میں انہیں کیا بتا تا کہ جس وسیب اور جن وسیب والوں کے لئے بر کت اعوان سا ری زند گی لڑتا رہا اس وسیب اور اس وسیب کے کر تا دھرتا اس کی بیماری کے چار سا لوں میں اسے ایسے بھو لے رہے جیسے آ نکھ اوجھل پہا ڑ او جھل ۔ شا ئد ہمارے اسی سما جی المیے کو شاکر شجا ع آ بادی نے اپنے اس ڈو ہڑے میں بیان کیا ہے۔
کل خاب ڈٹھم جو مر گیاں ہاں جگ سوگ منیداں رہ گئے
کو ئی تیار میڈے جنازے د ا اعلان کر یندا رہ گئے
چن آروں پا روں ٹر تاں پئے ا وہ قدم گھلیندا رہ گئے
گئے غیر جنازہ چا شا کر اوہ پیر دھو یندا رہ گئے۔
تحریر : انجم صحرائی