کچھ سال پہلے کی بات ہے جب ملک میں ہر سال جنوری، فروری میں بسنت منائی جاتی تھی۔ چھوٹے بڑے سب ہی اپنے کام کاج چھوڑ کر چھتوں پر پتنگ بازی کیا کرتے تھے۔ بسنت اصل میں بہار کی آمد کا پیغام ہوا کرتی تھی، ہلکی ہلکی دھوپ میں پتنگ، گڈے اور پریاں اڑانا کتنا اچھا لگتا تھا۔ بسنت صرف پاکستان میں نہیں بلکہ بارڈر کے اس پار بھی بسنت کے دلدادے موجود ہیں اور ہر سال اس تہوار کو منارہے ہیں۔ بسنت کا تہوار تب شروع ہوا جب پاکستان اور انڈیا آزاد نہیں ہوئے تھے، اور یہ ایک ہی خطہ تھا جسے ہندوستان کہا جاتا تھا۔ یہ تہوار منانے کے لیے زیادہ ترلوگ لاہور آیا کرتے تھے۔ لاہور بسنت کے حوالے سے بہت اہم شہر ہے اور اسی وجہ سے لاہوری بسنت منانے کے لیے زیادہ بے تاب ہوتے ہیں۔ بسنت پاکستان میں ایک سپورٹس کی حیثیت اختیار کررہا تھا جس سے ہر طبقے کے لوگ چھوٹے بڑے سبھی بے حد شوق سے انجوائے کرتے تھے۔
مگر کچھ لوگوں نے بسنت کے رنگ میں بھنگ ملائی اور عوام پر بسنت کی پابندی لگ گئی۔ وہ حرکت یہ تھی کہ بسنت والے دن لوگوں نے پتنگ بازی کے ساتھ ہوائی فائرنگ شروع کردی۔ رہی سہی کسر بسنت کے سامان بیچنے والوں نے پوری کردی۔ خطرناک کیمیکل اور دوڑ پر شیشہ لگانا شروع کردیا جس کے باعث دوڑ پھرنے کی وجہ سے کئی قیمتی جانیں بے دردی سے اس جہان فانی سے کوچ کرگئی۔ اس تہوار کی وجہ سے اتنی زیادہ جانیں چلی گئیں کہ حکومت کو مجبور ہوکر2007 میں اس تہوار پر پابندی لگانا پڑی اور پولیس کو سختی سے حکم دیا کہ جو شخص پتنگ بازی کرے گا اس پر فرد جرم عائد کردی جائے۔
بسنت پر پابندی لگائے دس سال سے زائد کا عرصہ بیت گیا ہے اور ہر سال عوام بشمول کچھ سرکاری افسر اور سیاست دان بسنت پر لگی پابندی ختم کرنے کے لیے درخواستیں جمع کرواتے ہیں اور پنجاب حکومت کی جانب سے درخواست مسترد کردی جاتی ہے۔ پچھلے سال وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اپنے ٹویٹ میں صاف کہ دیا تھا کہ ہم کسی کو بھی عوام کی جانوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اس کے بعد عوام مایوس ہو کر پابندی کے باوجود بسنت والے دن پتنگ بازی کرتی رہی اور پولیس اسٹیشنوں کے جیل خانہ جات میں جگہ نہ بچی لہٰذا ملزم گرفتار ہوتے گئے۔ اس سال بھی جنوری کا اختتام قریب آتے ہی شہریوں نے پھر بسنت کی پابندی ختم کرنے کے لیے کوششیں شروع کردی ہیں۔ لاہور کے ڈپٹی میئرز نے ٹاؤن ہال میں درخواستیں جمع کرادی ہیں جبکہ کچھ پرائیویٹ میڈیا چینل بھی حکومت سے سیف بسنت پروگرام کی درخواست کرتے نظر آرہے ہیں۔
کسی بھی چیز پر پابندی لگا دینا اس کا حل نہیں ہوتا، ملک پاکستان میں جہاں پہلے ہی روزگار کی کمی موجود ہے، وہاں بسنت پر پابندی لگ جانے سے اچانک سے ہزاروں کی تعداد میں بسنت کے شعبہ سے وابستہ لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں۔ اگر بسنت کی وجہ سے نقصانات ہورہے ہیں تو ان مسائل کا حل کے تدارک کریں اور غیر ضروری چیزوں جیسے ہوائی فائرنگ، شیشہ دوڑ اور کیمیکل کے استعمال پر پابندی لگائی جائے اور ایک محفوظ بسنت منانے دی جائے۔ جلد ہی حکومت اعلان کردے گی کہ اس سال بسنت ہوگی یا نہیں جبکہ موجودہ حالات کے مطابق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس بار بھی بسنت کی اجازت نہیں مل پائے گی۔