تحریر: نعیم الرحمان شائق
وہ ایک عام علاقے کا عام آدمی تھا۔ غریب تھا، سو محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔ صبح کو اٹھ کر ناشتا کرنا، پھر بچوں کو اسکول چھوڑنا، پھر محنت مزدوری کرنے کے لیے بازار کا رخ کرنا اور پھر شام کو گھر لوٹ آنا۔ یہی اس کا برسوں کا معمول تھا۔ کبھی کبھار شام کو وہ ٹی وی پر خبریں بھی دیکھ لیتا تھا۔ تاکہ ملک کے بدلتے ہوئے حالات کے بارے میں اسے آگاہی حاصل ہو۔ وہ پانچ جماعتیں پاس تھا۔ اس نے کسی گورنمنٹ اسکول میں کافی عرصہ پہلے، جب وہ بچہ تھا، یہ پانچ جماعتیں پاس کی تھیں لیکن اسے اپنی ان پانچ جماعتوں پر آج کی گریجویشن سے بھی زیادہ فخر تھا۔ اس کے خیال میں اُس کی پانچ جماعتیں، آج کے گریجویشن سے بھی بہتر تھیں۔ بہر حال یہ اس کا خیال تھا۔ اس کے اس خیال سے جزوی طور پر اتفاق کیا جا سکتا ہے، کلی طور پر نہیں۔ پاکستان کی سیاست پر اس کی گہری نظر نہیں تھی۔ کیوں کہ وہ زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا۔ اس کے پاس اتنا وقت بھی نہیں تھا کہ وہ اخباروں کا ڈھیر لگا کر سارا دن پڑھتا رہے لیکن شام کو ٹی وی پر خبریں دیکھنے کی وجہ سے اس کو ملک میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں ضرور علم ہوتا تھا۔
ملک کے وزیر ِ اعظم اس کے شہر یعنی کراچی میں آئے تو اسے معلوم ہوگیا۔ اسے یہ بھی معلوم ہوا کہ وزیر ِ اعظم نے کراچی میں گرین لائن منصوبے کا سنگ ِ بنیاد رکھ دیا ہے۔ اس سے پہلے جب وہ “گرین” کا لفظ سنتا تو اس کے ذہن میں لاہور آجاتا لیکن اب اسے علم ہواکہ وزیر ِ اعظم کراچی میں بھی اس منصوبے کا آغاز کر رہے ہیں۔ اسے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس منصوبے پر 16 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے
اس سے پہلے وزیر ِ اعظم آزاد کشمیر گئے تھے، جہاں انھوں نے قومی صحت پروگرام کی بات کی تھی ، وزیر ِ اعظم نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس اسکیم سے مظفر آباد کے 82 ہزار لوگ مستفید ہوں گے۔ وہ وزیر ِاعظم کے ان مثبت کاموں سے بہت خوش ہوا ۔ خصوصا وزیرِ اعظم کے قومی صحت پروگرام نے اس کا دل جیت لیا ۔ کیوں کہ اس میں غریبوں کی بات کی گئی تھی اور وہ بھی ایک غریب شخص تھا۔ اس کا اس اسکیم پر خوش ہونا فطری بات تھی۔
وزیر ِ اعظم کے ان مثبت کاموں نے جہاں اسے خوش کیا، وہاں اسے اداس بھی کر دیا۔ وہ غریب تھا اور غریبوں کی طرح سوچتا تھا۔ اس کی اداسی کا تناسب اس کی خوشی سے زیادہ تھا۔ وجہ یہی تھی کہ وہ غریبوں کی طرح سوچتا تھا ۔ جب حکومت کی طرف سے غریبوں کو کوئی نوید سنائی جاتی تو وہ یہ ضرور سوچتا کہ اسے کیا فائدہ ہوگا۔ جب اس کو معلوم ہوتا کہ اسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا تو وہ اداس ہوجاتا اور بہت دنوں تک اداس رہتا۔ اب کی بار بھی اس نے یہی سوچا۔ سو وہ اسی نتیجے پر پہنچا کہ ان اسکیموں میں اسے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ اس لیے وہ بہت اداس ہوگیا۔
وزیر ِ اعظم کا قومی صحت پروگرام پاکستان کے صرف دو شہروں، اسلام آباد اور مظفر آباد تک محدود تھا۔ جب کہ وہ کراچی میں رہتا تھا اور کراچی کی کسی ایسی بستی میں رہتا تھا، جو بڑوں کی توجہ اپنی طرف کھینچنے کی صلاحیت سے عاری تھی۔
اس لیے اسے اس حقیقیت کا ادراک ہو گیا کہ قومی صحت پروگرام میں اس کے لیے اور اس کی بچوں کے لیے کچھ بھی نہیں رکھا ہوا۔ ہاں ، اگر وزیر ِ اعظم اس اسکیم سے پورے ملک کے غریبوں کو مستفید کر یں تو واقعی یہ اسکیم اس کے لیے سود مند ثابت ہوگی۔ مگر جب تک یہ اسکیم مظفر آباد سے کراچی تک پہنچے گی ، اس وقت تک شاید کوئی اور حکومت آجائے اور یہ اسکیم ختم ہوجائے۔ کیوں کہ کراچی سے مظفر آباد کا راستہ خاصا طویل ہے۔ گرین لائن بس منصوبے میں بھی اس کے لیے کچھ نہیں تھ۔ وہ کسی غریب علاقے میں رہتا تھا۔ جب کہ گرین لائن بس کے روٹ میں اس کے علاقے کا نام و نشان تک نہیں تھا۔
اس کے اپنے بہت سے مسائل تھے۔ جو برس ہا بر س سے اس کے پیچھے لگے ہوئے تھے۔ اس کی خوہش تھی کہ اس کے یہ مسائل ختم ہو جائیں۔ اگر سارے نہیں تو کچھ نہ کچھ تو ضرور ختم ہونے چاہئیں۔ مثال کے طور پر اس کے بچے پرائیویٹ اسکول میں پڑھتے تھے۔ اسے ہر مہینے اپنی تنخواہ اور مزدوری کا بڑا حصہ بچوں کی فیسوں میں دینا پڑتا تھا۔ اس کی غریب معیشت پر اس وقت ایٹم بم گر جاتا، جب اسے دو مہینوں تک ڈبل فیس ادا کرنی پڑتی تھی۔ اس کی ہمت اس وقت جواب دے دیتی تھی، جب اسکولوں کا نیا سال شروع ہوتا تھا اور اسے بچوں کی کاپیاں کتابیں لینی ہوتی تھیں۔
اس کی خواہش تھی کہ گورنمنٹ اسکولوں کے اساتذہ پڑھانا شروع کر دیں، تاکہ وہ اپنے بچوں کو بغیر فیس کے اچھی تعلیم دلا سکے۔ مگر اس کی یہ خواہش برسوں سے پوری نہیں ہو رہی تھی۔ اس کے گھر میں اکثر و بیشتر پانی کا مسئلہ رہتا تھا۔ ہاں ! پانی کا مسئلہ۔ کبھی کبھار تو پانی بالکل نہیں آتا تھا۔ کبھی کبھار خراب اور بد بودار پانی آتا تھا۔ وہ اپنے بچوں کو وہ پانی نہیں پلاتا تھا کہ کہیں اس کے بچے بیمار نہ ہو جائیں۔
جب پانی بالکل نہیں آتا تھا تو وہ سخت اذیت کا شکار ہو جاتا تھا، اسے بڑی محنت اور کوشش کے بعد کسی حد تک پانی ملتا تھا۔ وہ پینے کے لیے باہر سے پانی خریدتا تھا، اس طرح پینے کے پانی میں اس کے کئی پیسے چلے جاتے تھے۔ اس کی خواہش تھی کہ پانی کا مسئلہ حل ہو جائے لیکن یہ مسئلہ کافی عرصے سے حل نہیں ہو رہا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ حکام ِ بالا کو بنیادی مسائل پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔
پانی کا مسئلہ بنیادی مسائل میں سے ایک ہے۔ جہاں پینے کا پانی نہ ہو، وہاں گرین لائن منصوبوں سے زیادہ پانی کے منصوبوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی دلی خواہش تھی کہ سب سے پہلے بنیادی مسائل حل ہونے چاہئیں۔ مگر کب حل ہوں گے ؟ یہ سوچ کر اسے کافی مایوسی ہوتی تھی۔
تحریر: نعیم الرحمان شائق
پتا : کراچی
ای میل : shaaiq89@gmail.com
ایف بی: facebook.com/naeemurrehmaan.shaaiq