تل ابیب: ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ چمگادڑیں آپس میں رابطے کے لیے ایسی خاص آوازیں خارج کرتی ہیں جن میں مخاطب کے علاوہ خود ان کی اپنی شناختی علامات بھی ہوتی ہیں جنہیں چمگادڑوں کے ’’ذاتی ناموں‘‘ سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔
یہ دریافت چھوٹی جسامت اور پھلوں کے رس پر گزارا کرنے والی ’’مصری چمگادڑوں‘‘ کے تفصیلی مطالعے کے بعد ہوئی ہے جس میں حیوانیات دانوں کی ایک ٹیم نے اس قسم کی 22 چمگادڑوں کی 15 ہزار سے زیادہ آوازیں ریکارڈ کیں جو انہوں نے 75 دنوں میں وقفے وقفے سے خارج کی تھی۔ اس پورے مطالعے کے دوران ہر آواز کے ساتھ ساتھ اسے پیدا کرنے والی چمگادڑ کی نشاندہی پر بھی خصوصی توجہ دی گئی تاکہ اگلے مرحلے پر تجزیئے میں ابہام پیدا نہ ہو۔اس کے بعد ایک کمپیوٹر پروگرام کے ذریعے ان تمام آوازوں کا انتہائی باریکی سے آپس میں موازنہ کیا گیا جس سے پتا چلا کہ ہر چمگادڑ سے خارج ہونے والی آواز کی لہروں میں ایک مخصوص نمونہ (پیٹرن) موجود ہے جس کے کچھ حصے میں لہروں کی بناوٹ کم و بیش مستقل نوعیت کی ہے۔ اسی طرح دو چمگادڑوں کے درمیان آواز کے ذریعے ہونے والے رابطے میں مختلف صوتی نمونے (وائس پیٹرنز) مقابل چمگادڑ سے مخصوص پیٹرن کی مانند تھے۔
ان تمام معلومات کی روشنی میں تل ابیب یونیورسٹی کے ماہرین نے دریافت کیا کہ جب کوئی چمگادڑ کسی دوسری چمگادڑ کو مخاطب کرتی ہے تو اس کے صوتی پیغام کے کچھ حصے خاص طور پر اس کی اپنی اور دوسری چمگادڑ کی شناخت والے صوتی نمونوں پر مشتمل ہوتے ہیں یعنی ہم ان حصوں کو چمگادڑوں کے ’’ذاتی ناموں‘‘ سے بھی تشبیہ دے سکتے ہیں۔علاوہ ازیں، بظاہر ایسا لگتا ہے جیسے ان ہی آوازوں میں چمگادڑیں ایک دوسرے کو نہ صرف یہ بتاتی ہیں کہ کیا کرنا ہے بلکہ اس سے بھی آگاہ کرتی ہیں کہ متعلقہ کام کیسے انجام دینا ہے۔ اس دریافت کی تفصیلات ریسرچ جرنل ’’نیچر سائنٹفک رپورٹس‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔واضح رہے کہ چمگادڑیں جو آوازیں خارج کرتی ہیں وہ بہت بلند فریکوئنسی والی ہوتی ہیں جنہیں انسان نہیں سن سکتے جب کہ ان ہی آوازوں کی بازگشت سے چمگادڑیں اپنے اطراف کا پتا چلاتی ہیں اور رہنمائی بھی حاصل کرتی ہیں۔ آواز کی مدد سے اپنے ارد گرد سے باخبر ہونے اور رہنمائی لینے کا عمل سائنسی زبان میں ’’ایکولوکیشن‘‘ (صوتی رہنمائی) کہلاتا ہے۔