تحریر : حافظ کریم اللہ چشتی
مدینہ منورہ کے شمال میں تین میل کے فاصلہ پرایک پہاڑ ہے جسے اُحدکہتے ہیں ۔یہ پہاڑ شرقاً غرباًپھیلاہواہے کوہ احدکے دامن میں مسلمان اورکفارکے درمیان ایک جنگ ہوئی جوتاریخ اسلام میں غزوہ احدکے نام سے مشہورہے غزوہ بدرمیں مشرکین مکہ کومسلمانوں کے ہاتھوں سخت نقصان پہنچاتھاان کے بڑے بڑے سردارمارے گئے تھے اورپورے عرب میں ان کی رسوائی ہوئی تھی۔اس طرح ذلت آمیزشکست کازخم یوں توہرشخص کے دل میں تھالیکن جن لوگوں کے باپ ،بیٹے ،بھائی،بھتیجے،خویش اوراقارب جنگ بدرمیں مارے گئے تھے ان کورہ رہ کرجوش آتاتھاجذبہ انتقام سے ہرشخص کاسینہ لبریزتھاہجرت کاتیسراسال تھا۔ مکے کے کافرجنگ بدرکی شکست کابدلہ لینے کے لئے پورے ایک سال سے تیاریوں میں تھے۔ مشرکین مکہ نے چندے اکٹھے کیے اورسارامال جوابوسفیان بن حرب شام سے لایاتھامسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کے لئے وقف کردیالڑائی کا سامان اکٹھاکیاتین ہزارکابھاری لشکرترتیب دیاگیالشکرکے ساتھ تین ہزاراونٹ اوردوسوگھوڑے تھے۔
اس لشکرکاسپہ سالارابوسفیان تھا۔ آپۖکے چچاحضرت عباس مکے میں تھے جوں ہی کفارکالشکرمدینے پرحملہ کرنے کے لئے روانہ ہواحضرت عباس نے ایک قاصدکے ذریعے آپۖکواطلاع دی۔مکے کے قریش ابوسفیان کی بیوی ہندہ کی سرکردگی میں عورتوں کوبھی ساتھ لے آئے تھے کہ وہ میدان ِجنگ میں مردوں کوغیرت دلاتی رہیں کافروں کے لشکرنے اُحدکے مقام پرجومدینہ منورہ سے شمال کی طرف تین میل پرایک پہاڑہے ڈیرہ ڈال دیاانہوں نے آتے ہی ہرے بھرے کھیت اجاڑدیے اورچراگاہیں اپنے قبضے میں کرلیں۔ آپۖنے مشورہ کرنے کے لئے ایک اجلاس طلب کیاآپۖکی رائے تھی کہ مدینہ منورہ کے اندررہ کرہی مقابلہ کیاجائے لیکن کچھ جانثاروں نے شہرسے باہرنکل کرمیدان میں جنگ کرنے کامشورہ دیا۔ رسول اللہۖنے صحابہ کرام علہیم الرضوان کامشورہ قبول فرمالیا آپۖایک ہزارکالشکرلیکر3ہجری شوال المکرم کے مہینہ جمعة المبارک کے دن نمازعصرکے بعدمدینہ سے روانہ ہوئے۔
تھوڑی دورگئے تھے کہ منافقوں کے سردارعبداللہ بن اُبیّ نے حسبِ معمول اس موقع پرغداری کی اپنے تین سوساتھیوں کے ساتھ مدینہ واپس ہوگیا۔کیونکہ یہ شخص حضورۖکے آنے سے پہلے مدینے کابادشاہ بننے کے خواب دیکھ رہاتھا۔لیکن اسلام کی وجہ سے اسکی ساری امیدوں پرپانی پھرگیا۔اس وجہ سے یہ ہمیشہ منافقت کرتارہتاتھااس موقع پربھی اس نے یہ حرکت کی ۔اب مسلمان لشکرکی تعدادصرف سات سو700رہ گئی ۔ہرطرف سے خطرہ ہی خطرہ تھادشمن کی طاقت بہت زیادہ تھی لیکن مسلمانوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔آقاۖآگے بڑھے اوراُحدپہاڑکی گھاٹی کے قریب اترنے کاحکم دیا۔آپۖنے لشکراسلام کومختلف حصوں میں تقسیم کیااوراُحدپہاڑکو پیچھے رکھ کر صفیں درست کیں۔لشکراسلام کی پشت کی طرف ایک درّہ تھاجہاں سے دشمن کے حملے کاخطرہ تھا۔ آپۖنے حضرت عبداللہ بن جبیر کی کمان میں پچاس تیراندازوں کواس درّہ پرمقرر فرمایا اورتاکیدفرمائی کہ کچھ بھی ہوجائے اس درّے کونہ چھوڑنا۔اُحدکی جنگ میں بھی کافروں نے پہل کی کافروں کے لشکرکے عَلم بردارطلحہ نے آگے بڑھ کرمسلمانوں کوللکارااسکے جواب میں سیدناعلی المرتضٰی میدان میں اترے اوراسے زمین پرگراکرقتل کردیا۔
اسکے بعداسکابیٹانکلاجسے حضرت حمزہ نے قتل کردیااسی طرح مشرکین باری باری جھنڈااٹھاتے اورمارے جاتے رہے ۔حضرت حمزہ ،حضرت علی اورحضرت ابودجانہ انصاری دونوں ہاتھوں میں تلوارلیے دشمن کی لاشوں کے ڈھیرلگاتے رہے ۔کافروں نے پہل کی مسلمانوں کاجواب اس قدرسخت تھاکہ کافرمیدان جنگ سے بھاگ نکلے وہ مسلمان تیراندازجنہیں آقاۖنے تاکیدفرمائی تھی کہ کسی حال میں بھی درہ نہ چھوڑیں اس خیال سے کہ اب فتح ہوچکی ہے توانہوں نے اپنی جگہ چھوڑی دی ۔ان کے سردارنے کتناہی ان کوروکامگروہ یہ سمجھ کرکہ لڑائی ختم ہوچکی ہے درّے سے ہٹ گئے اورمال غنیمت سمیٹنے لگے ۔ درّے پراب صرف دس آدمی رہ گئے تھے۔ادھرخالدبن ولیدجوابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے دوسوآدمیوں کادستہ لیکردرّہ کی طرف سے گزرے درّ ہ کوخالی دیکھ کرلوٹ آئے اورحضرت عبداللہ بن جبیر کوساتھیوں سمیت شہیدکرکے لشکرِاسلام پراچانک حملہ کردیا۔جنگ کانقشہ ہی پلٹ گیا۔کافرفتح مندنظرآنے لگے ۔حضرت مُصعب بن عمیر کی شکل آپۖسے ملتی جلتی تھی وہ آپۖکوبچانے کی کوشش میں شہیدہوگئے کافروں نے یہ افواہ پھیلادی کہ (معاذاللہ )محمدۖ!شہیدہوگئے ہیں اس سے مسلمانوں کے ہوش اڑگئے ۔مسلمانوں کالشکربکھرگیا۔
حضرت ابوبکر،حضرت علی،حضرت سعدبن ابی وقاص،حضرت زبیر ،حضرت طلحہ اورحضرت ابودجانہ آپۖکے گردجمع ہوگئے۔ کفارنے پتھرپھینکے تیربرسائے آپۖکی پیشانی اوربازوزخمی ہوگئے اورآپۖکے دودانت مبارک بھی شہیدہوئے تھے۔ بعض صحابہ کرام علہیم الرضوان نے آپۖسے عرض کی کہ یارسول اللہۖان مشرکین کے لئے بددعافرمائیں ۔ آپۖنے فرمایا”میں لعنت کرنے کے لئے نبی نہیں بنایاگیامجھے تواللہ پاک کی طرف بلانے والااورسراپارحمت بنایاگیاہے ۔اے اللہ!میری قوم کوہدایت فرماکیونکہ وہ مجھے نہیں جانتی “۔حضرت عائشہ ،حضرت اُمِّ سُلیم،حضرت اُمِّ عمارہ انصاری اوردیگرمسلمان خواتین پانی بھرکرلاتیں اورزخمیوں کوپلاتی تھیں۔حضرت ابودجانہ اورحضرت طلحہ ڈھال بن کرحضورۖکے سامنے کھڑے تھے جوتیرآتاان صحابہ کرام علہیم الرضوان کے جسم مبارک میں پیوست ہوجاتا۔حضرت سعد بن ابی وقاص سرکارِدوعالم نورِ مجسمۖکے پہلومیں کھڑے ہوکردشمنوں پرتیرچلاتے رہے ۔حضورۖخوداپنے ہاتھوں سے انہیں تیردے رہے تھے اورفرماتے جاتے “سعدتجھ پرمیرے ماں باپ قربان اورتیرچلائو”حضرت فاطمة الزہرانے آپۖکے زخموں کودھویا۔حضرت علی المرتضی اس وقت ڈھال میں پانی بھربھرکرلاتے تھے۔
اس جنگ میں ستر70صحابہ کرام علہیم الرضوان شہیدہوئے تھے۔جن میں آپۖکے پیارے چچاسیدالشہداء حضرت حمزہ بن عبدالمطلب بھی شامل تھے ۔چونکہ آپ نے جنگ بدرمیں چن چن کراکثرصنادیدقریش کوتہ تیغ کیاتھااس لئے تمام مشرکین قریش سب سے زیادہ آپ کے خون کے پیاسے تھے چنانچہ جبیربن مطعم نے ایک غلام کوجس کانام وحشی تھااپنے چچاطعیمہ بن عدی کے انتقام کے لئے خاص طورسے تیارکیاتھااور اس صلہ میں اسے آزادی کالالچ دلایاتھاغرض وہ جنگ احدکے موقع پرایک چٹان کے پیچھے گھات میں بیٹھاہواحضرت حمزہ کاانتظارکررہا تھااتفاقاًوہ ایک دفعہ قریب سے گزرے تواس نے اچانک اس زورسے اپناحربہ پھینک کرماراکہ آپ شہیدہوئے۔آپ کی شہادت پرکفارکی عورتوں نے خوشی ومسرت کے ترانے گائے۔کافروں نے آپ کے کان ،ناک اوردیگراعضاء کاٹ لیے یہاں تک کہ شکم چاک کرکے جگرنکالااورابوسفیان کی بیوی ہندہ نے اُسے چباڈالا۔لڑائی کے اختتام پرآپۖاورصحابہ کرام دوسرے شہیدصحابہ کرام علہیم الرضوان کی لاشیں تلاش فرماکران کی تجہیزوتکفین کاانتظام فرمارہے تھے کہ حضرت حمزہ کواس حالت میں دیکھاتونہایت صدمہ ہوااورایک چادرسے ان کوڈھانپ دیا۔
آپۖنے پوچھاکہ کیااس نے کچھ کھایابھی ہے صحابہ کرام علہیم الرضوان نے عرض کی نہیں آپۖنے فرمایا!اے اللہ حمزہ کے کسی جزوکوجہنم میں داخل ہونے نہ دینا۔اتنے میں سیدالشہداء حضرت حمزہ کی حقیقی بہن حضرت صفیہ تشریف لائیں تاکہ اپنے بھائی کی حالت کودیکھیں آقاۖنے اس خیال سے کہ آخروہ عورت ہیں اورایسے ظلم کوبرداشت نہ کرسکیں گی اورتحمل مشکل ہوگاان کے صاحبزادے حضرت زبیر سے فرمایااپنی والدہ کودیکھنے سے منع کروانہوں نے والدہ سے عرض کی کہ آقاۖنے دیکھنے سے منع فرمادیاانہوں نے کہامیں نے یہ سناہے کہ میرے بھائی کے کان اورناک کاٹ دیے گئے ہیں ہم اس پرراضی ہیں میں اللہ پاک سے ثواب کی نیت رکھتی ہوں اوران شاء اللہ صبرکروں گی حضرت زبیر نے جاکرآقاۖسے ذکرکیاتوآپۖنے جواب سن کراجازت فرمادی۔
ایک روایت میں ہے کہ غزوہ احدمیں جہاں نعشیں رکھی تھیں وہاں ایک عورت تیزی سے آرہی تھی آپۖنے فرمایااس عورت کوروکو حضرت زبیر کہتے ہیں کہ میں نے پہچان لیاکہ میری والدہ ہیں میں جلدی سے روکنے کے لئے بڑھامگرانہوں نے مجھے ایک گھونسامارااورکہاپیچھے ہٹ میں نے کہاکہ آقاۖنے منع فرمایاہے توفوراًکھڑی ہوگئیں اسکے بعدانہوں نے دوکپڑے نکالے اورفرمایامیں اسے اپنے بھائی کے کفن کے لئے لائی تھی۔حضرت حمزہ کوکفن پہننانے لگے کہ برابرمیں ایک انصاری صحابی کی میت پڑی تھی جن کانام حضرت سہیل تھااورکفارنے ان کاحال بھی حضرت حمزہ جیساکررکھاتھاہمیں اس بات سے شرم آئی کہ حضرت حمزہ کودوکپڑوں کاکفن پہنایاجائے لیکن ساتھ انصاری کے پاس ایک بھی نہ ہوہم نے دونوں کے لئے ایک ایک کپڑاتجویزکیامگرایک کپڑابڑااورایک چھوٹاتھا۔
ہم نے قرعہ نکالنے کافیصلہ کیاتاکہ جوکپڑاجس کے حصے میں آئے اسے کفن پہنادیاجائے قرعہ میں چھوٹاکپڑاحضرت حمزہ کے حصے میں آیاجوان کے قدکے مطابق چھوٹاتھااگرسرڈھانپاجاتاتوپائوں کھل جاتے اورپائوں کی طرف کیاجاتاتوسرکیطرف سے کھل جاتاآقاۖنے ارشادفرمایاسرکوکپڑے سے ڈھانپ دواورپائوں پرپتے وغیرہ ڈال دواس طرح ایک ایک کپڑے میں دونوںصحابہ کودفن کیاگیا۔ایک انصاری خاتون گھرسے آپۖکے بارے میں معلوم کرنے نکلی لوگوں نے اسکوبتایاکہ اسکابھائی شہیدہوگیاہے اس نے کہاکہ رسول اللہۖتوسلامت ہیں ؟پھراسے اسکے بیٹے کی شہادت کی خبردی گئی تواس نے پھروہی سوال کیاکہ رسول اللہۖتوخیریت سے ہیں ؟پھر اسے اسکے شوہرکی موت کی خبرسنائی دی گئی توبھی اس نے رسول اللہۖکے متعلق دریافت کیالوگوں نے کہاآقاۖاللہ پاک کے فضل وکرم سے خیریت سے ہیں اس نے کہامجھے دکھائوجب دورسے آپۖکاچہرہ دیکھ لیاتوبے اختیارکہہ اٹھی “آقاۖکے ہوتے ہوئے ہرایک مصیبت برداشت ہوسکتی ہے”۔
قریش کے واپس جانے کے بعدمسلمان بھی مدینہ لوٹ آئے ۔اس وقت مدینہ میں کہرام بپاتھا۔ہرگھرسے رونے کی آوازیں آرہی تھیں۔آقاۖکادل بھرآیاکہ سب کے لئے رویاجارہاہے لیکن آپۖکے چچاحضرت حمزہ کاکوئی رونے والانہیں ۔یہ انسانی فطرت تھی ۔چنانچہ انصارنے آپۖکاتاثردیکھ کراپنی عورتوں کوحضرت حمزہ کاسوگ منانے کے لئے بھیجالیکن آپۖنے شکریہ کے ساتھ واپس کردیاکہ مردوں پرنوحہ کرناجائزنہیں ۔(مسنداحمدبن حنبل جلد٣صفحہ١٨٤)۔
غزوہ احددراصل ایک فیصلہ کن جنگ نہ تھی ۔جانی اعتبارسے ضرورمسلمانوں کوکفارکے مقابلہ میں زیادہ نقصان اٹھاناپڑاکیونکہ ٢٢کفارکے مقابلہ میں سترصحابہ کرام علہیم الرضوان شہیدہوئے مگرکفارکویہ ہمت نہ ہوئی کہ وہ مدینہ پرحملہ کرکے اس پرقبضہ کرتے ۔اس جنگ میں مسلمانوں کویہ سبق مل گیاکہ رسول اللہۖکی اطاعت نہ کرنے سے تائیدغیبی بھی ان کاساتھ چھوڑدیتی ہے اوروہ اپنی دنیوی زندگی میں بھی کامیاب نہیں ہوسکتے ۔آج بھی مسلمانوں کے زوال کاواحدسبب اللہ اوراس کے رسول ۖکے احکامات پرعمل نہ کرنے کی وجہ سے ہے۔
اللہ پاک ہم سب آقاۖکے اسوہ حسنہ پرچلنے اوراسکے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطافرمائے ہمارے تمام وہ گناہ جوہم نے اعلانیہ یاچُھپ کرکیے سب کومعاف فرمائے ۔بروزقیامت اپنے محبوبۖکی شفاعت نصیب فرمائے۔مسلمان کوآپس میں اتفاق واتحادنصیب فرمائے ۔ملک پاکستان کوامن وسلامتی کاگہوارہ بنائے ۔آقاۖکے غلاموں کوہرجہان میں کامیابی عطافرمائے اوردشمنانِ اسلام کونیست ونابودفرمائے اورملکِ پاکستان میں نظام مصطفیۖلاگوفرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین۔
تحریر : حافظ کریم اللہ چشتی
0333.6828540