قطر (کامران غنی) اردو شاعری کا اگرچہ بڑا حصہ غزل اور اس جیسی صنفوں کو محیط رہا ہے پھر بھی کئی دوسری صنفیں اپنے امکانات متعین کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ مثنوی، قصائد اور مراثی نے غزل کے سامنے نئے دور میں اپنی بساط ہی سمیٹ لی لیکن انجمنِ پنجاب کی کوششوں سے نظم نگاری کے لیے محمد حسین آزاد اور حالی نے جو ماحول سازی کی ، اسی سے ہماری نظم نگاری نے کچھ ایسی موثر موجودگی کا ثبوت دیا جس کی وجہ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ غزل کے پہلو بہ پہلو کسی اور صنف کے لیے کوئی گنجائش پیدا ہوتی ہے تو وہ فی زمانہ نظم ہی ہے۔
قطر کے سب سے قدیم ادبی ادارے ‘بزم اردو’ کے تیرھویں بین الاقوامی سے می نار سے خطاب کرتے ہوئے قومی اردو کونسل براے فروغِ اردو زبان کے ڈائرکٹر پروفیسر ارتضیٰ کریم نے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے اردو کے اہم نظم نگاروں کی خدمات پر گفتگو کے دوران مذکورہ باتیں کہیں۔ مہمانِ ذی وقار کی حیثیت سے کالج آف کامرس ، پٹنہ کے سابق صدر شعبۂ اردو پروفیسر صفدر امام قادری نے اردو میں نظم نگاری کی تاریخ کی مختلف کڑیوں کو جوڑتے ہوئے یہ کہا کہ انگریزی تراجم اور انجمنِ پنجاب کی کوششوں سے اگرچہ اردو نظم کی بے پایاں ترقی ہوئی لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کے کافی پہلے سے اردو میں نظم نگاری کا سلسلہ قائم ہوچکا تھا۔ انھوںنے محمد قلی قطب شاہ ، فائز دہلوی اور بالخصوص نظیر اکبر آبادی کی نظم گوئی کے امتیازات واضح کرتے ہوئے یہ بتایا کہ محمد حسین آزاد اور حالی سے کافی پہلے اردو میں نظم نگاری کے بہترین نمونے سامنے آچکے تھے۔
پروفیسر قادری نے غزل اور نظم کی مقبولیت اور فی زمانہ اہمیت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ دانش ورانہ افکار و نظریات کی پیش کش کے لیے اردو شاعری میں آج نظم سے بہتر کوئی دوسری صنف موجود نہیں۔ اسی لیے نظم کو بہر طور قائم رہنا ہے۔ سے می نار کی صدارت کرتے ہوئے قطر کے ادبی حلقے کے روح و رواں جناب محمد صبیح بخاری نے اردو کے مرکزی علاقے سے دور اردو کے چراغ کو روشن کرنے کے لیے بزم اردو، قطر کے اراکین اور دیگر اداروں سے متعلق ادبا اور شعرا کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ شاعری اور کسی خاص موضوع پر سے می نار منعقد کرنے سے ہم نے یہاں اپنی تہذیب و ثقافت کو محفوظ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ انھوںنے کہا کہ ادیب اور شاعر حقیقت میں تہذیبی پیغامبر ہوتے ہیں اور دنیا میں انسانیت اور امن کی تبلیغ انھیں کے ذریعہ کامیابی کے ساتھ ممکن ہوپاتی ہے۔
جناب محمد حبیب النبی نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے اہلِ قطر کو بھی مبارک باد دی کہ ہر بار اردو کے نامور لکھنے والوں کو بلا کر وہ ایک خوش گوار ادبی ماحول قائم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ پروگرام کی نظامت معروف شاعر اور بزم اردو کے سکریٹری جناب احمد اشفاق نے کی اور مہمانوں کا خصوصی تعارف پیش کرنے کی ذمہ داری قطر کی مختلف تنظیموں کے سربراہوں نے ادا کی۔ جشنِ اردو کے دوسرے روز بین الاقوامی رسالہ ‘صدف’ کی رسمِ اجرا، بیت بازی اور مشاعرے کا سہ سطحی پروگرام منعقد ہوا۔ جس کی صدارت پروفیسر صفدر امام قادری نے کی اور مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے نیشنلٹ کانگریس پارٹی کے جنرل سکریٹری ، سابق مرکزی وزیر اور ممبر پارلیمنٹ جناب طارق انور نے شرکت کی۔ جناب طارق انور نے اردو زبان کی شیرینی اور مقبولیت کی یاد دلاتے ہوئے بزم اردو، قطر کے افراد کی بھرپور تعریف کی اور بتایا کہ اس محفل میں شریک ہوکر انھیں ایسا محسوس ہورہا ہے کہ وہ اپنے وطن میں ہی ہیں۔ مہمانِ ذی وقار کی حیثیت سے عرب نژاد کیپٹن ناصرالسویدی اور فیصل ہداوی نے بھی اپنے خصوصی خطابات سے مشاعرے کو رونق بخشی۔
مشاعرے کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر صفدر امام قادری نے اہالیانِ قطر کی ادب دوستی کی تعریف کرتے ہوئے ان کے ادبی کاموں سے اپنی سابقہ واقفیت کا ذکر کیا اور بتایا کہ دیارِ قطر میںر ہنے والے مختلف شعرا ہم عصر ادبی دنیا میں خاصے نمایاں ہیں اور ان کے کلام کی رسائل میں اشاعت اور جن کے مجموعے شائع ہوگئے ہیں ان کی تحریروں کی بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ہوتی ہے۔ انھوںنے یہ بھی کہا کہ مشاعرے میں شعرا کے کلام کو سننے کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ یہاںقدیم اور جدید ہر رنگ کے اہلِ قلم موجود ہیں۔ مشاعرے میں امجد علی سرور، شارق اختر، فرطاش سید، عزیز نبیل، احمد اشفاق، ندیم ماہر، اعجاز حیدر، فرزانہ صفدر، قیصر مسعود، زوار حسین، رضاحسین، اطہر ضیا، طاہر جمیل، سعادت علی، وسیع الحق، راقم اعظمی اور انوار کریم نے اپنا کلام سنایا۔ مشاعرے کی نظامت جناب احمد اشفاق نے کی۔
اس دور وزہ پروگرام میں جن اہم اشخاص نے اسے وقار بخشا، ان میں جناب حسن عبدالکریم چوگلے، جناب شہاب الدین احمد ، جناب اعجاز حیدر، جناب محمد عتیق، جناب محمد عرفان اللہ، جناب سید فہیم الدین وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔ بڑی تعداد میں شائقینِ اردو نے اس پروگرام میں شرکت کی اور ہوٹل سفائر پلازہ کے ہال کو اس خاص پروگرام کے لیے واقعتا دلہن کی طرح سے سجایاگیا تھا۔