لندن (ویب ڈیسک) انڈیا کے آئین میں جموں کشمیر کی خصوصی شہریت کے حق سے متعلق دفعہ
35-A کا مسئلہ کشمیر سے بھی پرانا ہے۔ اس قانون کی رُو سے جموں کشمیر کی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری ریاست میں غیرمنقولہ جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا، یہاں نوکری حاصل نہیں کرسکتا نامور صحافی ریاض مسرور بی بی سی کے لیے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نہ کشمیر میں آزادانہ طور سرمایہ کاری کرسکتا ہے۔یہ قوانین ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے سنہ 1927 سے 1932 کے درمیان مرتب کیے تھے اور ان ہی قوانین کو سنہ 1954 میں ایک صدارتی حکمنامہ کے ذریعہ آئین ہند میں شامل کرلیا گیا۔انڈیا کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) گذشتہ 70 سال سے کشمیر سے متعلق انڈین آئین میں موجود اُن تمام حفاظتی دیواروں کو گرانا چاہتی ہے جو جموں کشمیرکو دیگر بھارتی ریاستوں سے منفرد بناتی ہیں۔ مثال کے طور پرجموں کشمیر کا اپنا آئین ہے اور ہندوستانی آئین کی کوئی شق یہاں نافذ کرنی ہو تو پہلے مقامی اسمبلی اپنے آئین میں ترمیم کرتی ہے اور اس کے لیے اسمبلی میں اتفاق رائے ضروری ہوتا ہے۔حالانکہ کشمیر کی خودمختاری کی اب وہ صورت نہیں رہی جو 70 سال قبل تھی۔ یہاں پاکستانی زیرانتظام کشمیر کی طرح وزیراعظم ہوتا تھا اور صدرریاست ہوتا تھا۔ لیکن اب دیگر ریاستوں کی طرح گورنر اور وزیراعلی ہوتا ہے۔ تاہم 35-A کی آئینی شق ابھی بھی ریاست کے باشندوں کو غیرکشمیریوں کی بے تجاشا آبادکاری سے بچارہی ہے۔ اسی شق کو بی جے پی کی حامی این جی او ‘وی دا سٹیزنز’ نے سپریم کورٹ میں چلینج کیا ہے۔سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت کئی سال سے ہورہی ہے اور اکثر اوقات سماعت موخر ہوجاتی ہے۔ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کوئی فرد یا جماعت آئین کی کسی شق کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے تو حکومت ہند عدالت میں اس کا دفاع کرتی ہے۔ لیکن نریندرمودی کی قیادت والی بی جے پی حکومت نے ایسا نہیں کیا۔ظاہر ہے بی جے پی بھی چاہتی ہے کہ جموں کشمیر کا بھارت کے ساتھ مکمل ادغام ہو، لہذا حکومت اس معاملے میں خاموش ہے اور عندیہ یہ دیا جارہا ہے کہ جو کچھ کرے گی سپریم کورٹ کرے گی۔ 6 اگست کو اس کیس کی سماعت تین میں سے ایک جج کی غیرحاضری کے باعث موخر ہوگئی تاہم اگلی سماعت کی تاریخ 27 اگست مقرر کی گئی ہے۔تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ یا تو ایک وسیع آئینی بینچ کا تعین کرکے اس معاملے پر دوبارہ غور کرے گی اور بعد ازاں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ 35-A کو پارلیمنٹ میں بحث اور توثیق کے لیے ریفر کیا جائے۔ بی جے پی کے اعتراض کی بنیاد ہھی یہی ہے کہ اس آئینی دفعہ کو ‘چوردروازے’ سے آئین میں داخل کرایا گیا اور پارلیمنٹ میں اس پر نہ بحث ہوئی اور نہ اس کی توثیق ہوئی۔کشمیریوں کو خدشہ ہے کہ اگر آئینِ ہند میں موجود یہ حفاظتی دیوار گر گئی تو وہ فلسطینیوں کی طرح بے وطن ہوجائیں گے، کیونکہ کروڑوں کی تعداد میں غیرمسلم آبادکار یہاں بس جائیں گے، جو ان کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قابض ہوجائیں گے۔یہ خدشہ صرف علیحدگی پسند حلقوں تک محدود نہیں۔ ہند نواز سیاسی حلقے بھی اس دفعہ کے بچاو میں پیش پیش ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ اتوار اور پیر کو کشمیر ہی نہیں بلکہ کرگل اور جموں کے سبھی مسلم اکثریتی علاقوں میں سخت ترین ہڑتال کی گئی۔تجزیہ نگار پروفیسر حمیدہ نعیم کہتی ہیں: ‘دراصل بی جے پی مسئلہ کشمیر کو اپنے حساب سے حل کرنا چاہتی ہے۔ اسے لگتا ہے کہ کشمیریوں کے علیحدگی پسند جذبات کی بنیادی وجہ دفعہ 35-A ہے، اسے ختم کیا گیا تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ کیونکہ بعد میں یہاں کی آباد میں مسلمانوں کا تناسب حد درجہ گھٹ جائے گا۔’ہند نواز جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر سنہ 1947 میں ایک خودمختار ریاست تھی جس نے بعض اختیارات ایک الحاق نامہ کے تحت بھارت کو دے دیے۔ ان میں دفاع، مواصلات اور کرنسی ہیں۔نیشنل کانفرنس کے رہنما فاروق عبداللہ کہتے ہیں: ‘اگر 35-A کو ختم کیا گیا تو الحاق بھی ختم ہوجائے گا۔’ پی ڈی پی کی سربراہ اور سابق وزیراعلی محبوبہ مفتی نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ‘اگر 35-A کو چھیڑا گیا تو کشمیر میں بھارتی ترنگا لہرانے والا کوئی کشمیری نہیں ہوگا۔’پہلی جنگ عظیم کے بعد انڈیا کے پنجاب، ہریانہ اور دلی جبکہ پاکستان کے پنجاب اور سندھ سے لاکھوں لوگ کشمیر میں کاروبار کے سلسلے میں آتے تھے اور ان میں سے بیشتر یہاں آباد بھی ہوجاتے۔ 1927 میں جموں کے ہندو ڈوگروں نے اسُ وقت کے مہاراجہ ہری سنگھ سے کہا کہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو جموں کشمیر کے پشتینی باشندے اقلیت میں بدل جائیں گے اور ان کی روزی روٹی بھی ختم ہوجائے گی۔بعد ازاں کئی سال تک قانون سازی کی گئی اور حق باشندی
کا قانون یا ‘سٹیٹ سبجیکٹ لا’ وجود میں آیا۔جموں میں نیشنل کانفرنس کے رہنما دیوندر سنگھ رانا کہتے ہیں: ‘دفعہ35-A کو ختم کیا گیا تو جموں کے ڈوگروں کی شناخت ہی ختم ہوجائے گی۔ یہاں جموں کشمیر کی پولیس نہیں بلکہ پنجاب پولیس نظر آئے گی جو ڈوگروں پر ظلم کرے گی۔ نوجوانوں کے روزگار پر اثر پڑے گا، ہماری منفرد ثقافت کو بھارت سے آنے والے کروڑوں لوگ نگل لیں گے۔’تجزیہ نگار ریاض ملک کا کہنا ہے کہ بی جے پی ہمیشہ مسلم بیشنگ اور ہندوتوا کارڈ کی بنیاد پر انتخابات لڑتی ہے۔ نریندر مودی کے چار سالہ دور اقتدار میں معشیت میں بہتری، روزگار، تعمیرو ترقی کے ضمن میں کچھ نہیں ہوا۔انھوں نے کہا: ‘پاکستان کے خلاف جارح پالیسی بھی تلخ کلامی تک محدود رہی۔ ایودھیا میں رام مندر بھی نہیں بن پایا۔ اب لے دے کے کشمیر بچتا ہے، جہاں بی جے پی اپنی نظریاتی فتح کا جھنڈا گاڑنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ کئی برس سے کشمیر میں نہ صرف سخت ترین سکیورٹی پالیسی پر عمل ہورہا ہے بلکہ کشمیر کے مسلم اکثریتی کردار پر بھی حملے ہورہے ہیں۔’دوسری جانب گذشتہ تین سال سے ہند نواز حلقوں کو شدید عوامی ناراضگی کا سامنا ہے۔ وہ بھی اس موقعہ کو غنیمت جانتے ہوئے عوامی ہمدردی بحال کرنے کی کوشش میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علیحدگی پسندوں کی کال پر مظاہروں اور ہڑتال کی جو کال دی گئی تھی اس میں ان جماعتوں کے کارکنوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔