لندن (ویب ڈیسک) انڈیا میں ہمالیہ کی پہاڑی ڈھلوانوں پر کاشت کی جانے والی چائے کے دنیا کے پہلے بائیوڈائنیمک فارم کی کہانی جہاں صرف چاندنی راتوں میں چائے کی پتیاں چنی جاتی ہیں اوراس کی قیمت 1850 ڈالر فی کلو گرام ہے۔انڈین ہمالیہ میں سطح سمندر سے 2200 میٹربلندی پر واقع ڈھلوانوں اور دنیا کےمشہور خاتون صحافی کلپنا پردھان بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔تیسری بلند ترین پہاڑ کی خنگچیندزوگا کے برف پوش چوٹیوں میں گھری دارجیلنگ کی یہ وادیاں انتہائی دلکش منظر پیش کرتی ہیں۔ جنگلی ہاتھی اور ٹائیگر وادی میں گھومتے ہیں اور پہاڑی ڈھلوانوں میں بودھوں کی خانقاہیں لٹکتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں، لیکن دارجیلنگ کی شناخت یہاں کاشت ہونے والی زمرد کے رنگ جیسی سبز چائے ہے جسے ’چائے کی شیمپین‘ کہا جاتا ہے، اور یہ بین الاقوامی شہرت کی حامل ہے۔ دارجیلنگ میں چائے کی کاشت کے لیے 87 علاقے مشہور ہیں۔ لیکن آپ شہر سے 33 کلومیٹر جنوب کی طرف جائیں تو وہاں وکٹورین عہد کی ایک قدیم چائے کی فیکٹری ملے گی جو ایک نایاب قسم کی چائے تیار کرتی ہے۔ اسے سلور ٹپس اپیریل کہا جاتا ہے جسے مکرائبری سٹیٹ سے صرف ماہرین پورے چاند کی چاندنی راتوں میں چنتے ہیں۔ یہ ایک مہنگا کام ہے۔ سنہ 2014 میں یہ 1050 امریکی ڈالر فی کلو کے حساب سے فروخت ہوئی جس سے یہ انڈیا میں پیدا ہونے والی سب سے مہنگی چائے بن گئی۔مارچ کے وسط سے مئی تک پہلی صاف چاندنی رات کو، جب سمندر کی لہریں بلند ہوتی ہیں اور پودوں میں پانی کی سطح میں کمی واقع ہوتی، مکرائبری کے کسان یقین کر لیتے ہیں کہ ہوا میں آکسیجن کی زیادہ مقدار اور توانائی چائے کی نرم و ملائم پتیوں میں زیادہ ذائقہ پیدا کرتی ہیں۔چنانچہ سورج کے غروب ہوتے ہی، یہاں کے مزدور ایک منفرد قسم کی روحانی تقریب جو کہ ایک رسم جیسی ہے میں شرکت کی تیاری کرتے ہیں۔ سلور ٹپس امپیریل ایک سیزن میں صرف چار سے رات آٹھ بجے جب چاند پوری طرح روشن ہوتا ہے، تقریباً 80 سے 100 خصوصی طور پر تربیت یافتہ پتیاں چننے والے پہاڑیوں کا رخ کرتے ہیں اور ہر پودے سے دو پتے اور ایک کلی کو چنتے ہیں اور اپنے سر کے ساتھ بندھی ہوئی ایک بڑی سے ٹوکری میں ڈالتے ہیں۔ اگر پتیوں پر سورج کی روشنی پڑ جاتے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کی چائے کی خوشبو متاثر ہوتی ہے، چنانچہ یہ افراد نصف شب تک تمام پودوں سے چنائی مکمل کرتے ہیں تاکہ اگلی صبح سے پہلے ان کو چائے کی شکل دے دی جائے۔ سلور ٹپس امپیریل ٹی کے 50 کلوگرام مقدار کی تیار کے لیے 200 کلوگرام پتیاں درکار ہوتی ہیں، اور مزدور اس سے زیادہ کم ہی چن پاتے ہیں۔ خریدار زیادہ تر مارچ کے وسط اور مئی کے درمیان چاندنی راتوں میں چنی گئی پتیوں سے تیار چائے کے لیے زیادہ قیمت ادا کرتے ہیں جب پتے زیادہ چمک دار اور خوشبو دار ہوتے ہیں۔ سلور ٹپس امپیریل کی محدود پیداوار شاید کی بھاری قیمت کی وجہ ہو سکتی ہے لیکن مکرائبری کی جادوئی کشید کا آفاقی راز جاننا خاصا مشکل ہے۔ فارم مینیجر سنجے داس کے مطابق نیم ابال والی اولونگ چائے کو آم اور گلِ یاس کے ساتھ مکس کیا جاتا ہے تاکہ اس کو زیادہ عرصے تک قابل استعمال بنایا جا سکے، اور جیسے ہی آپ سب سنہری رنگ کے بلینڈ کی ایک چسکی لیتے ہیں آپ بالکل توانا محسوس کرتے ہیں۔ اس احساس کی بدولت سنہ 2014 میں برطانیہ، امریکہ اور جاپان میں خریدار 1850 ڈالر فی کلوگرام ادا کرنے پر مائل کیا ہے۔ حالیہ برسوں میں انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے ملکہ الزبیتھ دوئم کو بھی اس کا ایک پیکٹ بطور تحفہ دیا تھا۔ سنہ 2014 فیفا ورلڈ کپ کے دوران بھی اس کی فروخت ہوئی۔ اس کی محدود ورائٹی بین الاقوامی خریدار برطانیہ، امریکہ اور جاپان میں کاروباری افراد فوراً خرید لیتے ہیں۔ یہ کاروبار 159 سال سے ایک ہی خاندان میں ہے۔ اب مکرائبری اور اس کی مشہور سلور ٹپس امپریل ایک نیا دور کا آغاز کرنے والے ہیں۔ رواں سال کے آگاز میں بنرجی نے اعلان کیا تھا کہ 47 سال تک کمپنی کا چیئرمین رہنے کے بعد وہ اب اس عہدے سے الگ ہو رہے ہیں اور اپنے تمام حصص کمپنی کے 600 کے قریب ملازمین میں تقسیم کر دیں گے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مکرائبری نے سلور ٹپس امپیریل کا اپنا آفاقی راز افشا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ شاید اب اس کے مستقبل ان کے ہاتھوں میں ہے جو زمین پر اس کی حفاظت کرتے ہیں۔