لاہور(ویب ڈیسک)عضلات (پٹھوں) کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال کی جانے والی سٹیرائڈز مرد کے جسم میں موجود ہارمونز پر اثرانداز ہوتی ہیں سائنسدانوں نے یہ معلوم کیا ہے کہ دلکش نظر آنے کی جستجو میں کیے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں مردوں کی تولیدی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ توانا جسامت کے لیے سٹیرائڈز اور گنجے پن کے خاتمے کے لیے دواؤں کے استعمال کا اثر تولیدی صلاحیت پر پڑ سکتا ہے۔اس دریافت کا نام ان دو سائنسدانوں موسمین اور پیکی کے نام پر رکھا گیا ہے جنھوں نے پہلی بار اس ارتقائی پیراڈوکس تھیوری کو متعارف کرایا تھا۔ان سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ ایسی دواؤں کے استعمال سے تولیدی عمل میں مشکلات درپیش رہتی ہیں۔امریکہ کی براؤن یونیورسٹی کے ڈاکٹر جیمز موسمین نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے مشاہدہ کیا کہ اپنا تولیدی صلاحیت کا معائنہ کروانے کے لیے آنے والے مردوں میں سے اکثر قوی الجثہ ہوتے تھے۔ڈاکٹر موسمین اُس وقت شیفیلڈ میں ڈاکٹریٹ کی تعلیم حاصل کررہے تھے جب انھوں نے انسانوں پر سٹیرائڈز کے مضر اثرات کو ثابت کیا۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ (مرد) بہت بڑے یعنی دیوقامت نظر آنا چاہتے ہیں لیکن وہ اپنے آپ کو ارتقائی لحاظ سے بہت کمزور بنا رہے ہیں، جس کا صاف مطلب ہے کہ سرے سے ان کے مادۂ منویہ میں بچے پیدا کرنے والے سپرم ہی موجود نہیں۔‘عضلات (پٹھوں) کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال کی جانے والی سٹیرائڈز مرد کے جسم میں موجود ہارمونز پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ یہ دوائیں باڈی بلڈرز باقاعدگی سے استعمال کرتے ہیں۔ارتقائی پیراڈوکس تھیوری کے بانی ڈاکٹرموسمان اور ڈاکٹر پیکی شیفیلڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ایلن پیکی کا کہنا ہے کہ ’تعجب کی بات تو یہ ہے کہ مرد پرکشش نظر آنے کے غرض سے جِم جاتا ہے، تاکہ خواتین اس کی طرف متوجہ ہوں۔ لیکن یہ سب کرنے سے ان کی بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے۔‘اینابولک سٹیرائڈز دماغ کے پیچوٹری غدود پر اثرانداز ہوتے ہیں، جس سے لگتا ہے کہ خصیوں کی کارکردگی بہت بڑھ گئی ہے۔ایسے میں یہ غدود ایف ایس ایچ اور ایل ایچ ہارمونز بنانا چھوڑ دیتا ہے اور سپرم کی افزائش کے لیے یہ ہارمونز نہایت کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ محققین کے مطابق گنجا پن دورے کرنے کی ادویات کے استعمال میں بھی یہی صورتحال درپیش ہوتی ہے۔محققین کا ماننا ہے کہ مرد گنجے پن کو روکنے کے لیے ایسی دوائیں استعمال کرتے ہیں جو بال گرنے کے نقصان کو کم تو کرسکتا ہے لیکن اس سے ایرکٹائل ڈسفنکشن کے علاوہ تولیدی صلاحیت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔پروفیسر پیکی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان دواؤں کے استعمال کرنے والوں میں بانجھ پن کا امکان انسانی سوچ سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ شاید یہ 90 فیصد تک ہے۔‘ان کے مطابق ’گنجےپن کا علاج تو کسی پر اثر کرتا ہے اور کسی پر نہیں لیکن اس سے متعلقہ ادویات کی بےتحاشا فروخت کی وجہ سے یہ ایک بڑا مسئلہ بن رہا ہے۔‘ارتقائی عمل کی کامیابیوں کے اثرات اگلی نسل تک منتقل ہوجاتے ہیں۔ڈاکٹر موسمین کا کہنا ہے کہ ’خوبصورتی بڑھانے والی دواؤں کا استعمال آپ کو دلکش تو بنا سکتا ہے لیکن یہ بتدریج مکمل بانجھ پن کی وجہ بن سکتا ہے۔‘دماغ کے ساتھ جڑے سیل ایف ایس ایچ اور ایل ایچ ہارمونز کی افزائش کو بند کردیتے ہیں یہ مور کی دم کی طرح نہیں کہ جو خواتین کے لیے مرد بہت جاذب نظر بنا دے اور یہ سلسلہ اگلی نسل تک منتقل ہو سکے۔دنیا میں ایسی حقیقی مثالیں موجود ہیں کہ جہاں ایک جانور اپنی نسل پیدا نہ کرنے کی قربانی دیتا ہے۔پرندوں کی کچھ ایسی اقسام موجود ہیں جو دوسروں کی مدد ایسے کرتی ہیں کہ جہاں انفرادی طور پر اپنی اولاد سے ہٹ کر قریبی رشتہ داروں کے بچوں کو پالنے میں مدد کی جاتی ہے۔ارتقائی عمل میں یہ ایک قابل فہم تصورہے کہ آپ کے آدھے جینز بہن بھائیوں میں ہوتے ہیں اور اس طریقے سے وہ بلواسطہ بھی اگلی نسل کو منتقل ہو رہے ہوتے ہیں۔ڈاکٹر موسمین کے خیال میں یہ سوچ صرف انسانوں میں ہی پائی جاتی ہے کہ ’اپنی تولیدی صلاحیت کو ختم کرنے کے بدلے میں صنف مخالف کے لیے آپ بہت پرکشش بن جائیں’۔پروفیسر پیکی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرے خیال میں یہ تولیدی امراض کا شکارافراد کے لیے واضح پیغام ہے۔‘کلینکس میں رش بڑھ رہا ہے اور یہ کہ پیغام درست طریقے سے نوجوانوں تک نہیں پہنچ رہا ہے کہ یہ ایک مسئلہ ہے اور اس حوالے سے کچھ معلومات انھیں بڑی مشکل سے بچا سکتی ہیں۔‘