لاہور (ویب ڈیسک) ڈیمز کی تعمیر کے خلاف تکنیکی جنگ شروع ہوگئی ہے سیاسی محاذ آرائی کے ساتھ ساتھ مکار دشمن نے اعدادوشمار اور استدلال کا نیا محاذ کھول دیا ہے ثابت کیا جارہا ہے کہ نئے ڈیم بنانے سے پہلے ہمیں گھریلو اور زرعی شعبوں میں پانی کے بے محابا ضیاع کو روکنا ہوگانامور کالم نگار محمد اسلم خان روزنامہ نوائے وقت میں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔جس کیلئے عادات کو بدلنا ناگزیر ہو گا اسی طرح برسر زمیں ڈیم بنانے کی بجائے فطری انداز میں زیر زمین پانی کے ذخائر کے موثر استعمال اور تحفظ کو یقینی بنانے سے پانی کے بحران پر آسانی سے قابو پایا جاسکتا ہے۔ قدرت نے زیرزمین پانی کے دریا اور نہریں بہا رکھی ہیں جنہیں زمین کے اندرونی علم کی جدید اصطلاح میں ’ہائیڈرو جیالوجی‘ کہاجاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ پانی کے استعمال اور اس سے استفادہ کی سوچ اور انداز بھی تبدیل ہوتا آرہا ہے۔ آج ڈیمز کی تعمیر کی ملک میں بحث جاری ہے۔ آبی ذخائر کی اس سوچ بچار میں نئے نئے زاوئیے وا ہورہے ہیں کچھ اسی قسم کے نئے پہلو پانی کی منصوبہ بندی کے ماہر ین پاکستان کے لئے پیش کر رہے ہیں۔ آبی ذخائر (dams) کی تاریخ پر سیاسی پہلوؤں سے تنقیدی جائزہ بھی لیا جارہا ہے جس کے مطابق دنیا میں بننے والے ڈیمز کی تعمیر اکثریت سیاسی مسائل حل کرنے کے لئے ہوئی۔ انہیں آبی مسائل کے حل کے لئے بنایاگیا تھا۔ دنیا میں کسی بھی ڈیم کی تاریخ اٹھالیں ہر ڈیم کے پیچھے سیاسی ایجنڈہ اور مفاد پرست گروہ برآمد ہوتے ہیں۔ جن میں عالمی مالیاتی ادارے اور بڑی بڑی تعمیراتی کمپنیاں شامل ہیں۔اس سلسلے میں امریکی تحقیقی صحافی مارک ریچنرکی تصنیف ’ cadlic desert ‘ میں ہوش ربا انکشافات کئے گئے ہیں جس میں امریکہ میں تعمیر ہونے والے ڈیمز کے حوالے سے تاریخی عوامل بیان کئے گئے ہیں۔ جس سے ثابت کیا گیا ہے کہ ڈیمز کو بنیادی طورپر سیاسی آلہ کار کے طورپر استعمال کیاگیا ہے۔ ایک دہائی مانچسٹر انگلستان میں گزارنے کے بعد واپس لوٹنے والے میاں سہیل اقبال نے پانی کے استعمال بارے انگریزوں کی عادات کا بہت قریب سے مطالعہ کیا ہے بتاتے ہیں کہ تمام عمارات میں بارش کے پانی کو سوفیصد محفوظ کرنے کا انتظام بنیادی ڈیزائن کا حصہ ہوتا ہے اسی طرح باورچی خانے میں کھلی ٹونٹی کے نیچے برتن دھونے کی بجائے سنک میں پانی جمع کرکے برتن صاف کئے جاتے ہیں اور یہ پانی پودوں کو لگایا جاتا ہے۔ پاکستان میں جرمن سفیر نے ایک بالٹی پانی سے اپنی کار دھو کر عملا پانی کے محتاط استعمال کا پیغام پاکستانی قوم کو دیا تھا جس کی وڈیو کو youtube پر لاکھوں افراد نے دیکھا اور اس عوام دوست سفیر کو داد دی تھی۔پاکستان میں آبی قلت کے بڑھتے ہوئے مسائل کا تجزیہ کچھ یوں کیا جا رہا ہے کہ
ڈیم کے حامیوں کی دلیل ہے کہ پاکستان میں لوگوں کو پانی کی فراہمی میں ماضی کی نسبت کمی واقع ہوئی ہے۔ کہاجاتا ہے کہ پہلے فی فرد دستیاب پانی کی شرح پانچ ہزار تھی جو اب بتدریج کم ہوکر ایک ہزار فی کس کی سطح پر آگئی ہے۔ جبکہ عالمی معیار ہماری سوچ و فکر سے یکسر مختلف ہے۔ عام آدمی کو یومیہ 35گیلن پانی چاہئے ہوتا ہے۔ ایک اچھی صحت مند زندگی گزارنے کے لئے ایک آدمی کو ایک سال میں 60کیوبک میٹر پانی درکار ہے۔ اگر ہمارے پاس ہزار کیوبک میٹر پانی موجود ہے تو ہم اب بھی اس معاملے میں آسودہ اور قسمت کے دھنی ہیں۔پاکستان میں ہمارا سب بڑا مسئلہ پانی کا بے تحاشہ اور بے جا ضیاع ہے۔ زراعت کے معاملے میں ماہرین کی شکایت ہے کہ ہم دیگر دنیا کی نسبت پانی کا بہت ’اْجاڑا‘ کرتے ہیں۔تازہ ترین تحقیق کے مطابق ہم ہر سال ایک سو چار ملین ایکڑ فٹ پانی نہروں میں ڈالتے ہیں۔ دونوں بڑے ڈیموں میں آبی ذخیرہ کل ملا کر بہت قلیل ہے۔ یہ مجموعی طور پر ساڑھے تیرہ ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس ساڑھے تیرہ ملین ایکڑ فٹ ذخیرہ میں سے تمام کا تمام ساڑھے تیرہ ملین زراعت کیلئے استعمال نہیں ہوتا۔
زراعت کیلئے ایک سو چار ملین ایکڑ فٹ پانی بروئے کار آتا ہے۔ اس میں سے آٹھ سے دس ملین ایکڑ فٹ پانی ڈیمز سے زراعت کیلئے مہیا کرتے ہیں۔ اس طرح زراعت میں آپکے ڈیمز سے حاصل کردہ پانی کا حصہ دس فیصد ہے۔بلکہ بعض اوقات اس سے بھی کم ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر اتنا شور کیوں مچایاجارہاہے کہ ڈیم بن جائے گا تو سارے مسائل حل ہوجائیں گے؟ جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ماہرین کا دعوی ہے کہ اگر موجودہ دونوں منگلا اور تربیلا ڈیمز کا پانی زرعی مقاصد کیلئے استعمال نہ بھی کیا جائے تو ملکی زراعت پر صرف دس فیصد منفی فرق پڑے گا۔اصل سوال یہ ہے کہ بنیادی مسئلہ ڈیم کی تعمیر نہیں بلکہ 84 فیصد اْن لوگوں کو پینے کا صاف پانی پہنچانا اور ان کی رسائی کو یقینی بنانا ہے جو بْری طرح زندگی گزاررہے ہیں۔ سندھ میں کیٹی بندر اور کھارو چن کے علاقے اس کی زْندہ مثال ہیں کہ بر لب سمندر یہ ساحلی علاقے پانی کی محرومی کا نقشہ کھینچتے ہیں کہ شاید لوگ ان علاقوں کے بارے میں پوری طرح آگاہ بھی نہ ہوں۔ ’’جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم ڈیم کے اوپر بیٹھیں(پہرہ دیں) گے۔ وہ دس دن کے لئے کھارو چن اور کیٹی بندر کے بیچ میں بیٹھ جائیں اور صرف وہ پانی پئیں جو وہاں کے بچے پی رہے ہیں‘‘۔
سوال یہ ہے کہ ڈیم بن بھی جائے اس کا پانی کس طرح 84 فیصد آبادی پہنچے گا۔ یہ پانی کیٹی بندر کیسے جائے گا؟ تھر، کراچی اور اسلام آباد کے مسائل کیسے حل ہوں گے اور پھر زراعت کیسے ٹھیک ہوجائے گی۔ اس لئے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ڈیموں کی تعمیر کی بجائے پانی کا ضیاع بند کرنا ہے پاکستان کے پاس سالانہ اوسط ایک سو پینتالیس ملین ایکڑ فٹ پانی دستیاب ہوتا ہے۔ موجودہ ڈیمز میں تقریبا بارہ سے تیرہ ملین ایکڑ فٹ کا ذخیرہ ہوتا ہے۔ باقی تمام کا تمام پانی دریاؤں میں چلاجاتا ہے۔ دریاؤں میں سے ایک سو چار ملین ایکڑ فٹ نہروں میں چلاجاتا ہے۔ ان کو شکایت ہے کہ کوٹری سے نیچے تو پانی جاتا ہی نہیں۔ گزشتہ چار سال میں یہاں سے پانی نیچے کی جانب نہیں گیا۔ حالانکہ پینتیس سینتیس ملین ایکڑ فٹ پانی ضرور بہنا چاہئے۔گزشتہ برسوں کو بھی ساتھ ملا کر مجموعی اعدادوشمار بتادیتے ہیں کہ 90ملین ایکڑ فٹ پانی دیاگیا۔ ایک اوسط شرح نکال کر بتادیاجاتا ہے جو عالمی معیار اور اصول کے قطعی منافی ہے۔اس طرح اعداد وشمار کو استعمال کرنے کا طریقہ کار ہی درست نہیں۔ آبی معاملات میں اوسط کی بنیاد کوئی بھی استعمال نہیں کرتا۔ حقیقت دیکھیں تو فی الحال کوٹری سے نیچے پانی کی فراہمی نہیں ہورہی۔