لاہور (ویب ڈیسک)کدو بیل پر اگنے والی سبزی ہے۔کدو ایشیا، امریکااور افریقہ کے گرم ملکوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ یہ گیلی مٹی میں اگتا ہے ۔ اسے افزائش کے لیے تیز دھوپ درکار ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں پودے کی بڑھوتری آدھی دھوپ اور آدھی سائے کی جگہ پر ہو جاتی ہے۔ گول کدو سائز میں تربوز کے برابر ہوتا ہے۔
اس کا چھلکا قدرے سخت ہوتا ہے اور رنگت میں پیلا ہوتا ہے۔ اس کے بیج گودے سے چپکے ہوئے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اسے بطور ترکاری اور گوشت کے ساتھ ملا کر پکایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اسے چھلکے سمیت بھی پکاتے ہیں۔ ناشتے میں یعنی چپاتی یا پوری کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ ہائی بلڈپریشر کے مریض کم نمک کے ساتھ اسے پکائیں تو مفید رہتا ہے اور قبض نہیں ہونے دیتا۔ کدو کے بیجوں کو بطور دوا استعمال کرنے کی تاریخ پرانی ہے۔ انہیں چھیل کر کھایا جاتا ہے اور عرق بھی نکالا جاتا ہے۔ جس سے قہوہ تیار ہوتا ہے۔ کدو میں پروٹینز کی اچھی خاصی مقدار ہوتی ہے۔ اس میں امینو ایسڈ بھی ہوتا ہے جو پیٹ کے کیڑوں کو نکال دیتا ہے۔ اس کے بیجو ں میں فیٹی ایسڈز بھی ہوتے ہیں جس سے پروسٹیٹ گلینڈ کا ورم دور ہوتا ہے۔ ایک پیالی بیج کھانے سے 7.8 ملی گرام بیٹا کروٹین حاصل ہوتی ہے جس سے دل کے امراض اور کینسر سے بچاؤ ممکن ہو سکتا ہے۔ لینولک ایسڈ ایک ایسا جزو ہے جس سے شریانوں کی سختی دور ہوتی ہے۔ دن میں ایک بارمٹھی بھر کدو کے بیج کھانے سے مثانے کی سوزش اور گردوں کی صفائی ممکن ہو جاتی ہے۔ جرمنی میں ان سے ادویہ تیار کی جاتی ہیں۔ چین میں کدو کے بیجوں کو ڈپریشن دور کرنے کے لیے کھایا جاتا ہے۔ یہ بیج کھانے سے جوڑوں کے ورم کی شکایت بھی ختم ہو جاتی ہے۔تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ کدو کے بیج کھانے سے مضر اثرات نہیں ہوتے۔یہ نقصان دہ نہیں ہوتے۔ انہیں کھانے سے بہت سی بیماریاں ختم ہو جاتی ہیں۔ چار مغزوں میں کدو کے بیج بھی شامل ہوتے ہیں۔ آپ چاہیں تو زردے یا دیگر میٹھی ڈشز میں استعمال کر سکتے ہیں