تحریر : محمد اکرم اعوان
ہمارے ہاں سیاستدان اقتدار میں آنے کے لئے عوام کو خوبصورت وحسین خواب دکھاتے ہیں اور پھراِقتدارمیں آکر ا ِن حسین خوابوں کی تعبیرعوام کے لئے اتنی ہی زیادہ کربناک اوربھیانک بنادیتے ہیں۔اقتدار سے پہلے کم وبیش ہرپارٹی اور سیاستدان کے الفاظ ہوتے ہیں کہ اب عوام فیصلہ کرچکے ہیں۔ اب ہمیں اقتدار میں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ہم نفاق کو اتفاق میں بدلیں گے۔ہمارے دور ِحکومت میں قومی یکجہتی کو قوت ملے گی۔ہم نے ہمیشہ اصولی سیا ست کی ہے،اصولوں پر سودابازی ہمارے لئے گناہ کبیرہ ہے۔ہم اقتدار میں آکرملک میں تعلیم ،روزگارکے مواقع،انڈسٹری کوفروغ دیں گے۔ ہم ملک میں امن وامان کی صورت ِ حال بہتر بناکربیرونی سرمایہ کاروں کوملک میں سرمایہ کاری کا موقع دیں گے۔ہم اس ملک سے کرپٹ لوگوں،چوروں اور ٹھگوں کوبھگائیں گے۔ہم اداروں کومضبوط بنائیں گے،اداروں کی مضبوطی کے لئے آئین وقانون کی حکمرانی قائم کریں گے۔ہم دہشت گردی ختم کرکے ملک کے مستقبل کو محفوظ بنائیں گے اورپاکستان کو اصلی مقام دلوائیں گے۔ ہماری جماعت اس وقت ملک کی مقبول ترین جماعت ہے کیونکہ دوسری پارٹیوں کے مقابلہ میں ہمارے پاس عوام کی خدمت اورعوام کے جان ومال کے تحفظ کے لئے زیادہ اچھا پروگرام ہے۔ہم بھاری اکثریت سے جیت کرمعاشرے میں موجودچھپے ملک دُشمن عناصر کا مکمل صفایا کردیں گے،انہیں کہیں بھی پناہ نہیں ملے گی۔
انتخابات سے پہلے توکئی ۔۔۔ ایک راہنماء اپنے سیاسی مخالفین کوباقاعدہ نشان ِ عبرت بنانے کے دعوے کرتے نظرآتے ہیں۔کہ اب اِن نااہلوں کا دور گزر چکا۔ اِن سیاسی نااہلوں نے عوام کا استحصال کیا۔ انہوں نے جو لوٹ مار کی ہے اورقوم کے اربوں روپے لوٹے ہیں اگرانہوں نے یہ پیسہ واپس نہ کیا توہمیں لوٹی ہوئی رقم واپس لینا آتاہے۔انہوں نے دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹی اور ملک کادیوالیہ کردیا۔ملک میں بجلی اور گیس کا بحران اور دیگرہرقسم کی سہولیات کا فقدان ہے۔ان کے دور ِ حکومت میں اٹیمی پاکستان اندھیروں میں ڈوبا رہا۔اب یہ نااہل لوگ اقتدار کا صرف خواب دیکھیں گے، ہم انہیں مزید لوٹ مار کی اجازت نہیں دیں گے۔ہم بھاری اکثریت سے جیت کران کا مکمل صفایا کردیں گے۔ گزراش یہ ہے کہ خدا کے لئے اب بس کریں کیونکہ پاکستان کے عوام آپ کی سب ڈرامہ بازیوں، دعووں ،وعدوں اور تقریروں کوسن کر عاجز کا چکے ہیں ۔ اب عمل کا وقت ہے، پہلے ہی بہت زیادہ وقت اور قوم کی قیمتی جانیں آپ لو گوں کی سیاست کی نظر ہوگئی ہیں۔اب روزانہ منعقد کئے جانے والے اجلاس جیسے تاخیری حربوں سے عوام کو دھوکہ اورملک دُشمنوں کومزید موقع دینے کی بجائے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ماضی میں یہی غلطی ہوئی کہ ہم نے معاملات کو سمجھنے ،جانچنے ،حل کرنے کی خلوص ِ نیت سے کوشش ہی نہیں کی اور حکمران طبقہ اِس ناسور کو ختم اور ملک دُشمن عناصرکی مرمت کرنے کے بجائے محض مذمت کرتارہا۔
اس میں ذرا شک نہیں کہ ہمارے مقتدرطبقہ نے صرف حکمرانی کے مزے لوٹے اورملکی قرضوں میں اضافہ کیا۔ انہوں نے دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹی اور ملک معاشی طور پردیوالیہ کرنے کے ساتھ ملک و قوم کو بے رحم دہشت گردوں کے حوالہ کردیا۔ ان کی بے حسی،لالچ اور خودغرضی کا فائدہ اُٹھا کرملک دُشمن عناصرکے حوصلے مزیدبڑھتے گئے اوروہ ملک کے طول عرض میں خون کی ہولی کھیلتے رہے جبکہ حکمران طبقہ خاموش تماشائی بنا رہا۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے اوراب اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ معاشرہ میں بدامنی اوردہشت گردی کا بیج کس نے بویااور آبیاری کس نے اور کس وجہ سے کی مگریہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے خود غرض اورنااہل حکمرانوں کی وجہ سے آج وہی زہریلا بیج ایک قدآور درخت بن چکا ہے۔ جس کے زہریلے کانٹے ملک کے مشرق ومغرب تک کے ہرانسان کے جسم و روح تک کو چھلنی کر چکے ہیں۔ کہنے کو ہم مسلمان ہیں اورپاکستان کے حصول اور اس کے لئے بے پناہ جانی ومالی اورعزتوں تک کی قربانی دی تاکہ مسلمان ایک الگ خطہء میں بے خوف وخطراللہ کے احکامات اور اللہ پیارے نبی حضرت محمدمصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے مطابق زندگی گزار سکیں۔
مگر افسوس کہ اس ملک میں نہ تواسلام کو اہمیت حاصل ہوسکی اور نہ ہمارے عوام اورحکمرانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کی زندگیوں کو اپنے لئے نمونہ بنایا۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیم اجمعین کے حالات زندگی پڑھ کراُن کی زندگی اور سعادت پر رشک آتاہے کہ یہ کیسے بے مثل حضرات تھے، جنہیں دُنیا اور دُنیاوی مال ومتاع سے کوئی غرض ہی نہیں تھی۔اُن کا مقصداللہ ، اُس کے رسول کی اطاعت تھی۔ انہیں بنی نوع انسان کی فلاح وبہبودسے بڑھ کرکوئی چیز نہیں تھی۔ سیدناحضرت عمرفاروق نے اپنے دورِ خلافت میں صحابی رسول حضرت سعدبن عامر کوحمص کا گورنر مقرر فرمایا۔اس عظیم منصب پر فائز ہونے کے باوجودآپ انتہائی سادہ اور زہدوتقویٰ کی زندگی بسر فرماتے تھے۔اپنے ذاتی گھوڑوں کی باربرداری کی آمدنی سے گزربسرکرتے۔اپنے آپ کو عوام کی فلاح وبہبود کے لئے وقف کررکھا تھا۔ ایک بار سیدنا عمر فاروق حمص تشریف لے گئے۔ آپ نے حمص کے غریب و مساکین کی فہرست تیار کرنے کا حکم دیاکہ یہاں کے غرباء کی مددکا اہتمام کیا جائے۔جب یہ فہرست سیدنا عمر کی خدمت پیش کی گئی تواس میں حضرت سعد بن عامر کانام بھی تھا۔سیدنا عمرفاروق نے فرمایا یہ سعدبن عامر دوسرا کون ہے؟ فہرست مرتب کرنے والے نے عرض کیا ہمارا امیراور گورنرہے۔حضرت سعد بن عامر کی یہ حالت اس وجہ سے تھی کہ یہ سرکاری خزانہ سے ایک پائی بھی وصول نہ کرتے تھے۔
آج ہمارے حکمرانوں کا مقصد کاروبار،دولت اور زیادہ سے زیادہ دُنیا اکٹھا کرنا رہ گیاہے جبکہ امن وامان، عوام کی فلاح وبہبود اور جان ومال کے تحفظ کے حوالہ سے ان کی جیب ہمیشہ خالی رہی۔یہاں ایک طرف ظلم و تشدداوربربریت ہے تو دوسری طرف لالچ ، ضد اور ہٹ دھرمی۔ خودغرضی ،ضد،ہٹ دھرمی اور انا پرستی انسان کو خودسے اوپراُٹھ کر سوچنے کی صلاحیت سے محروم کردیتی ہے۔یہ بات بالکل واضح ہے کہ انا، ضد اور ہٹ دھرمی کبھی بھی مسائل کا حل قرار نہیں پاتے بلکہ اس کا نتیجہ مزید فساداور بگاڑکے علاوہ کچھ نہیں برآمد ہوتا۔فی زمانہ سب سے زیادہ ضروری امرملک اورسماج دُشمن عناصر کا خاتمہ ہے۔تاکہ عوام بدامنی سے پاک معاشرہ میں زندگی گزار سکیں۔ پشاور میں معصوم بچوں کے ساتھ پیش آنے والے سفاکانہ واقعہ کے بعدایک بار تو محسوس ہوا کہ واقعی ہمارے سیاستدانوں اورحکمرانوں کواپنی سستی اور کاہلی کا احساس ہوگیا ہے۔
مگروقت گزرنے کے ساتھ یہ جذبہ ماند اورخودغرضی کی نظر ہوتا نظر آرہاہے۔ امن وامان کے مستقل قیام جیسے عظیم مقصد کے سامنے ایک بارپھرخلوص کی جگہ خودغرضی،اندیشوں اور تحفظات کی دیوار کھڑی کی جارہی ہے۔کل عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے جنہیں چور ،ٹھگ اور لٹیرے کہاجارہا تھاآج وہی انتباہ کررہے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے،کہیں ویسا نہ ہوجائے۔دوسری طرف اس ملک کے عوام جنہوں نے موجودہ حکمرانوں پر اعتماد کیااور انہیں عزت بخشی ،صرف اپنی جانوں کے تحفظ کی بھیک مانگ رہے ہیں۔یادرہے کہ اس بار ہم نے پشاور میں شہیدہونے والے معصوموں کے خون کو اپنی سیاست، حکومت اور تحفظات کی نذر کردیا تو پھر اس ملک میں امن وامان کا قیام،صرف خوبصورت وحسین خواب ہی رہ جائیگا۔
تحریر : محمد اکرم اعوان