کچھ دن قبل مال روڈ لاہور سے اتفاقاً گزرا تو میری نظر فیروز سنز کی تاریخی عمارت پر پڑی۔ دکان چونکہ ایک عرصے سے بند ہے تو عمارت انتہائی خستہ حالت اختیار کرچکی ہے۔ فیروز سنز، غلام رسول بلڈنگ میں موجود ہوا کرتی تھی۔ اس عمارت کی حالت دیکھ کر مجھے فیض صاحب کا وہ مصرع ’’ہم کسے بیچنے الماس و گہر جائیں گے‘‘ یاد آگیا۔
فیروز سنز 1894 میں مولوی فیروز الدین نے قائم کیا تھا۔ یہ ادارہ ایک صدی سے زائد عرصے تک لوگوں میں علم کی پیاس بجھاتا رہا۔ گو کہ یہ ادارہ اب بھی موجود ہے مگر یہ اپنی تاریخی حیثیت کھوچکا ہے۔ مال روڈ پر واقع فیروز سنز کی عمارت مکمل طور پر بند ہوچکی ہے۔ اس دکان کے بند کواڑوں نے میرے اندر وہ تمام احساسات جگادیئے جو میں نے لاہور اور اس سے وابستہ شخصیات کے متعلق سن اور پڑھ رکھے تھے۔ میں اسی کشمکش میں مال روڈ پر چلتا چلتا پرانی انارکلی پہنچا تو پرانی انارکلی کے چوک سے جالب صاحب مجھے یاد آگئے۔ جالب صاحب کے آخری ایام علیگ صاحب کے پرانی انارکلی والے چوبارے میں بسر ہوئے۔
ایک مرتبہ جالب صاحب نے وہاں روزانہ جانا شروع کر دیا۔ جالب صاحب جب پرانی انارکلی والے چوک میں پہنچتے تو وہاں پان شاپ پر ایک نوجوان ان کے استقبال کےلیے موجود ہوتا۔ وہ جالب صاحب کو پان اور سگریٹ کی ڈبیا دیتا، ان کا بستہ ان کے بغل سے ہاتھ میں لیتا اور انہیں مسعود باری صاحب کے ہاں پہنچاتا۔ لوگ اسے جالب صاحب کا دیوانہ سمجھتے تھے۔ ایک دن کیا ہوا کہ جالب صاحب اپنا بستہ خود بغل میں دبائے ہوئے چوبارے پر پہنچے، ان کا دیوانہ ان کے پیچھے تھا، وہ بہت غصے میں تھا اور بری طرح جالب صاحب کو گھور رہا تھا۔ جالب صاحب کے ہوش اڑے ہوئے تھے، کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ بڑی مشکل سے اس نوجوان کو بولنے پر آمادہ کیا گیا تو کہنے لگا ’’آپ لوگوں نے مجھے ان پڑھ سمجھا ہوا تھا اور میرے ساتھ دھوکا کیا ہوا تھا۔ ہاں! میں ان پڑھ ہوں مگر میری باجی نے تو بی اے کیا ہوا ہے۔ کل رات میں نے ذکر کردیا کہ آج کل ’’غالب صاحب ‘‘ کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہوں، تو میری باجی نے بتایا کہ غالب کو مرے ہوئے تو سو سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے۔‘‘ یہ واقعہ خاور ندیم ہاشمی صاحب نے تحریر کیا تھا۔
مال روڈ سے مجھے ایک اور واقعہ یاد آیا کہ انتظار حسین صاحب نے ایک مرتبہ لکھا تھا کہ ناصر کاظمی کو نیچر سے بہت پیار تھا۔ ’’ایک مرتبہ جون کی گرمی میں انتظار حسین صاحب دفتر جارہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ناصر کاظمی سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے مال کے فٹ پاتھ پر جارہے تھے۔ انتظار حسین نے علیک سلیک کی تو کہنے لگے کہ پتے دیکھنے جا رہا ہوں، اس وقت لارنس باغ میں پتے جھڑ رہے ہوں گے۔‘‘
لیکن آج مال روڈ پر درخت بھی موجود ہیں، پتے بھی موجود ہیں۔ چڑیاں آج بھی ان لوگوں کو ڈھونڈتی ہیں۔ وہ قہوہ خانے بھی موجود ہیں۔ پاک ٹی ہاؤس بھی وہیں ہے۔ پرانی انارکلی بھی موجود ہے۔ مگر نہیں موجود تو وہ لوگ نہیں موجود جو شہر کی رونقیں ہوا کرتے تھے۔ وہ لوگ جو خود تو اداس تھے مگر ان کی موجودگی سے شہر ہمیشہ چمکتا دمکتا رہتا تھا۔ اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی کمی ہے، ایک لمبی مسافت ہے، ایک گہراخلا ہے۔
ناصر کاظمی نے خود ہی تو کہا تھا:
کہیں کہیں کوئی روشنی ہے
جو آتے جاتے سے پوچھتی ہے
کہاں ہے وہ اجنبی مسافر
کہاں گیا وہ اداس شاعر
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ yesurdu@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
زین علی