منیر نیازی بہت لمبے چوڑے، خوبصورت شخصیت کے مالک تھے، بڑا ہی ہینڈسم شخص تھا
وہ، اور اس کے ساتھ نہایت اچھے اخلاق کا بھی مالک تھا، بہت زبردست، اس زمانے میں انھوں نے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی تھی، بہت بڑی بات تھی اسی زمانے میں گریجویٹ ہونا۔ اور اتنا ہی بڑا شاعر بھی تھا۔ جب میرے بڑے بھائی نے رسالہ نکالا تو بڑے مسائل حائل تھے، رسالے کا نام تھا، انھوں نے ذہن پر زور دیتے ہوئے سوچا، ہاں ’’گڈ مارننگ کرکٹ کلب‘‘ یہ رسالے کا نام تھا۔ لیکن مسئلہ تو تصویروں کا تھا کہ کہاں تصویریں بنائی جائیں، کیسے کریں یہ سب۔ میں نے منیر بھائی سے کہا کہ یہ مسئلہ آرہا ہے کیا کریں؟
انھوں نے کہا فکر ہی نہ کرو، کل ہی میرے ساتھ چلنا میں تمہیں تمام اخبار کے دفاتر لے کر چلتا ہوں، تم وہاں چل کر تصویریں بنالینا۔ میں نے سوچا ایسے ہی کہہ رہے ہیں، لیکن بھئی دوسرے دن وہ مجھے لے کر پہنچ بھی گئے۔ ان کی بڑی جان پہچان تھی اور لوگ ان کا احترام کرتے تھے۔ بہرحال اس طرح ہمارا کام آسان ہوگیا۔ وہ ہماری برابر والی بلڈنگ میں ہی رہتے تھے اور ہمارے سب سے اوپر رہتے تھے، قتیل شفائی، میں ان سب کے سامنے کا بچہ تھا۔ ان کے اپنے بچوں جیسا ذرا شرارتی بھی، لیکن اس طرح سے کہ کسی کے ساتھ بدتمیزی، بد تہذیبی کی بات نہ ہو۔
سب مجھے مولوی مولوی کہہ کر چھیڑتے تھے۔ پتا نہیں کیوں کہتے تھے۔ وہ سب سمجھتے تھے کہ یہ اچھے خاندانی لوگ ہیں، ظاہر ہے باریش کے بعد تو جیسے آسمان زمین ایک ہوگیا تھا، لیکن اس زمانے میں اچھے لوگ اچھے لوگوں کی قدر کرتے تھے، احترام کرتے تھے۔ ہاں نیا نیا پاکستان بنا تھا۔ ہم اسی بلڈنگ گردھاری لال میں جب آئے تھے تو چھوٹے چھوٹے سے تھے، وہی اسکول میں پڑھا پھر کراچی آگئے تھے۔ ہاں تو بات ہورہی تھی قتیل شفائی کی، وہ بھی پڑوسی تھے اور بڑے اچھے پڑوسی۔ بچپن سے ہی میں جو بات کہہ دیتا تھا وہ ہوجاتی تھی، شاید اسی لیے وہ مجھ سے اپنی باتیں شیئر بھی کرتے تھے اور ایسی باتیں مشہور بھی جلد ہوجاتی ہیں اور شاید اسی لیے مجھے مولوی کہنے لگے تھے۔ بہرحال جب قتیل بھائی اپنی کسی فلم کے لیے ایک ساتھ چھ گیت لکھ کر دے کر آئے تو کہنے لگے:
مولوی! آج مجھے چار سو روپے ملے ہیں، میں نے چار گانے لکھ کر دیے تھے۔ ہماری والدہ حیدرآباد دکن بھی رہ کر آئی تھیں، وہاں کے لوگوں کی اردو بہت اچھی ہوتی ہے۔ تو قتیل بھائی حالانکہ خود ان کی بھی اردو اچھی تھی لیکن جب انھیں کنفیوژن ہوتا کہ میں نے یہ لفظ ٹھیک نہیں لکھا تو مجھ سے کہتے، اماں سے پوچھ کر آبیٹا۔ میں نے یہ لفظ لکھا ہے، اماں سے پھر میں پوچھ کر آتا کہ انھوں نے پوچھوایا ہے کہ اردو میں اس لفظ کے کیا یہی معنی ہوتے ہیں تو اماں بتاتیں اور ان کا ایسا ذہن تھا کہ کنفیوژن میں بھی کام چلا دیتے۔ ظاہر ہے کہ فلم انڈسٹری بھی اتنی پرفیکٹ نہ تھی لیکن پھر بھی اس زمانے میں لوگ دل سے کام کرتے۔ منیر نیازی اور قتیل شفائی بڑا نام ہے، بے ساختہ منہ سے ادا ہوا۔
بے شک بیٹا، اس زمانے میں تو بنیادوں پر کام ہورہا تھا ناں۔ ہم نے اپنے بچپن میں بڑے بڑے ناموں کو سڑکوں کی خاک چھانتے دیکھا ہے اور کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتا تھا۔ بابا چشتی، وہ بھی وہیں رہتے تھے۔ اچھا بابا جے اے چشتی، میڈم نور جہاں کے لیے تو انھوںنے بڑے اچھے گانے بنائے ہیں۔ ہاں وہی، سارا دن وہ عام انسانوں کی طرح گھومتے پھرتے۔ پھر شام کو اپنا شغل کرتے اور رات کو، ان کی آنکھیں ذرا حیرت سے پھٹی۔ چار چار گانوں کی وہ آدمی دھنیں بنا ڈالتا ایسے جیسے جن ہو۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسا میوزیشن نہیں دیکھا اور اسی آدمی کو دن میں دیکھو تو حیران رہ جاؤ کہ کیا یہی وہ آدمی ہے جو دیوانوں کی طرح فٹ فٹ دھن پہ دھن بنارہا ہے۔
وہ ذرا مسکرائے، اچھا ہمیں بہت سی باتیں اپنے ماموں کے ذریعے بھی پتا چلی تھیں، بچپن میں ہم بڑی توجہ سے مزے لے لے کر سنتے تھے، ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ بابا چشتی نے پھر ایک فلم بنائی نذیر اور سورن لتا کے ساتھ مل کر، یہ دونوں میاں بیوی انڈیا کی فلم انڈسٹری چھوڑ کر آئے تھے بہت اچھے اور محنتی لوگ تھے۔ وہ فلم انڈین فلم ’’اولاد‘‘ کی نقل تھی اور تو اور۔ وہ پھر مسکرائے، یہاں تک کہ اس کے گانوں کی بھی نقل کر ڈالی، اس زمانے میں ایسا رواج نہ تھا۔
بہر حال وہ فلم ’’نوکر‘‘ یہاں پاکستان میں خوب چلی، گانے بھی خوب چلے لیکن پھر یہاں ڈائریکٹرز اور فلم پروڈیوسرز وغیرہ نے احتجاج کیا کہ اس طرح کی فلمیں نہیں بننی چاہیے، یہ غلط ہے اور ہمیں خود اپنی کہانیوں پر فلمیں بنانی چاہیے۔ بہرحال اس کے بعد فلم بنائی ’’نیند‘‘ یہ تو بڑی مشہور فلم تھی، جس میں نور جہاں نے بھی کام کیا تھا، بالکل اس کے گانے بابا جی چشتی نے بنائے تھے، کیا گانے تھے۔ کیا کہانی تھی۔ اس کے بعد سے تو بابا اور بے بی کی جوڑی بن گئی اور بہت اچھی فلمیں بننے لگی۔
یہ تو میں بالکل شروع کی بات بتارہا ہوں اچھے اچھے موضوعات کو چنا گیا۔ جیسے سات لاکھ، کوئل وغیرہ۔ خواجہ خورشید انور علی آگئے تھے، فیلڈ میں بہت اچھا زمانہ تھا، وہ عزیز میرٹھی کتنے مشہور شاعر تھے، انڈیا میں ان کی گھڑی سازی کی دکان تھی اور دیکھو یہاں آکر وہ شاعر بن گئے۔ اداکار حبیب کتنا بڑا نام تھا، وہ بھی عام لوگوں کی طرح گزرتے تھے، اس زمانے میں اتنی بناوٹ نہ تھی جتنی آج کل ہے۔ میرا ایک بچپن میں بڑا اچھا دوست تھا، وہ لوگ لکھنو سے آئے تھے، وہ بھی بڑے اچھے خاندانی وضع دار تھے، اس کی بڑی بہن کی شادی صادق صاحب سے ہوئی تو صادق صاحب بھی لکھنو کے رنگ میں رنگ گئے۔ سفید کرتا پائجامہ پھر انداز گفتگو بھی آپ جناب۔ وہ مسکرائے۔ صادق صاحب خود اچھے کھاتے پیتے گھرانے کے تھے۔
ان کے والدین کی گڑھی شاہو میں فیکٹری تھی۔ وہ بہت منتوں مرادوں کے بعد پیدا ہوئے تھے، اس زمانے میں سنا ہے کہ ان کے والدین اجمیر شریف گئے تھے، وہاں دعا کی تھی، یہ بات پاکستان بننے سے خاصی پہلے کی ہے۔ صادق صاحب کا سینما تھا۔ ہمارے نانا مرحوم کا بھی انڈیا میں سینما گھر تھے۔ بہرحال وہ دور جب کہ ہمارے والدین پریشان رہتے تھے کیوںکہ وہ انڈیا میں بڑی عیش کی زندگی گزار رہے تھے اور یہاں پھر بھی شکر خدا کا کہ ہمیں اچھے پیارے لگ ملے کہ آج بھی جن کی لوگ عزت کرتے ہیں۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ صادق صاحب بہت اچھی نفیس انسان تھے ایاز صادق ان ہی کے فرزند ہیں۔ یہ ہمارے لاہور یعنی پنجاب کے سیاسی ہاں ہاں ڈپٹی اسپیکر ایاز صادق ہے ناں نفیس آدمی۔
وہ مسکراتے اپنی یادوں کے اوراق پلٹ رہے تھے اور ہم سوچ رہے تھے کہ ماضی میں کتنے ستارے گم ہوجاتے ہیں اور کتنے چمکنے کو بے تاب ہوتے ہیں کہ ابھی کہانی باقی ہے۔