تحریر: ابن نیاز
کہتے ہیں کہ کسی بھی انسان کی زبان سے نکلنے والے الفاظ اسکی شخصیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ اور یہ بات بہت حد تک سچ ہے کہ انسان جو کچھ کہتا ہے وہ بہت حد تک اسکے کردار سے ، اسکی سوچ سے مطابقت رکھتا ہے۔ اسکے خیالات کی عکاسی کرتا ہے۔ عمران خان صاحب نے ایک اصطلاح “نیا پاکستان” اپنی الیکشن مہم میں استعمال کرنا شروع کی تو اسکی جو تشریحات ہوئیں یا ہونی ہیں وہ علیحدہ بحث ہے لیکن جو تشریح مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے کی تو میں تو کیا، بہت سے لوگ پڑھ کر یقینا ششد ر رہ گئے ہوں گے۔ محترم نے وہ باتیں کیں کہ دل سے بے اختیار یہ دعا نکلی کہ اللہ نہ کرے کہ کبھی پاکستان پر وہ وقت دوبارہ آآئے۔ اللہ کبھی ایسا نہ کرے۔ استغفر اللہ۔ مولانا نے فرمایا تھا کہ عمران خان کے “نیا پاکستان” سے بغاوت کی بو آتی ہے۔ جنرل یحیٰی خان کی پیروی نظر آتی ہے۔ جنرل نیازی کی طرح عمران خان بھی پاکستان کو ٹکڑوں میں بانٹنا چاہتے ہیں۔ مولانا نے کہا کہ ١٩٤٧ میں قائدِ اعظم نے نیا پاکستان بنایا تھا۔
جب ہندوستان کے دو ٹکڑے ہوئے تھے۔ پھر ١٩٧١ میں جنرل یحیٰی خان اور جنرل نیازی کی غلطیوں سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیشن کی صورت میں جدا ہوا اور مغربی پاکستان ایک نئے پاکستان کے روپ میں دنیا کے نقشے میں رہ گیا۔ اور اب عمران خان خدا جانے کس حصے کو جدا کر کے (میرے منہ میں خاک) نیا پاکستان بنائیں گے؟ میں نے جب یہ بیان پڑھا تو بے اختیار ماضی کی ایک یاد دماغ میں لہرا گئی۔ جونیجو دورِ حکومت میں جب بے نظیر بھٹو صاحبہ پاکستان واپس تشریف لائی تھیں اور پھر جنرل ضیا ء کے فضائی حادثے میں فوت ہوجانے کے بعد الیکشن کی تیاریاں شروع ہو گئی تھیں تو کسی نے مولانا فضل الرحمٰن سے پوچھا تھا کہ کیا عورت کی حکمرانی جائز ہے؟ تو انھوں نے ببانگِ دہل جواب دیا تھا کہ قطعاً ناجائز ہے۔ کیونکہ اگر ایک چھوٹے سے گھر کی حکمراں ایک عورت نہیں ہو سکتی تو ملک کی حکمرانی کیسے جائز ہو گی؟ لیکن پورے پاکستان نے دیکھا کہ چند ماہ بعد ہی مولانا صاحب کواسی بے نظیر بھٹو صاحبہ کی حکومت میں ایک عدد وزارت دی گئی تھی۔ اور ظاہر ہے ایک وفاقی وزیر وزیر اعظم کو ہی جوابد ہ ہوتا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ اس وقت عورت کی حکمرانی کدھر گئی؟
نیا پاکستان” کے حوالے سے مولانا صاحب کا بیان انکی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ جبکہ میں کہوں گا کہ جب پاکستان سے دہشت گردی ختم کر دی جائے، قانون کی بالادستی قائم ہو، امیر غریب سب کے لیے ایک قانون ہو، سفارش رشوت اور اقربا پروری کا سسٹم ختم ہو کر میرٹ سسٹم بحال ہو، انصاف کا بول بالا ہو، غریب کبھی بھی بھوکا نہ سوئے، لوڈ شیڈنگ گیس کی ہو یا بجلی کی ، کا خاتمہ ہو۔ اسلام کے اصولوں کے مطابق عوام آزادی سے زندگی گزار سکیں، ملک میں معیشت اپنے اصلی اور اعلٰی مقام پر ہو۔ دنیا میں پاکستان کا نام مثبت انداز میں احترام و عزت سے لیا جائے۔۔۔ تو کیا یہ ایک نیا پاکستان نہیں کہلائے گا؟ جس طرح ایک ویران اور اجڑے گھر کی نئے سرے سے تزین و آرائش کی جاتی ہے تو ہر دیکھنے والا کہتا ہے کہ واہ یہ تو بالکل نیا ہو گیا۔ تو کیا پاکستان کو نیا نہیں کہا جا سکتا؟ مولانا صاحب، میرے اس سوال کا جواب ضرور دیجئے گا؟ اگرچہ یہ سوال مجھے الیکشن سے پہلے پوچھنا چاہیے تھا، لیکن ابھی بھی دیر نہیں ہوئی۔
عمران خان صاحب کا وژن بہت اعلٰی تھا۔ منشور بہت اچھا تھا۔ لیکن انکے بنائے گئے اس خوبصورت تالاب میں چند ایک گندی مچھلیاں بھی جمع ہو گئی تھیں اور بد قسمتی سے انکو ٹکٹ بھی دے دیا گیا۔ وہ ایسے لوگ تھے جو ممبر نیشنل اسمبلی یا صوبائی اسمبلی نہ ہونے کے باوجود لوگوں سے ملنے جلنے سے کتراتے تھے۔ پولیس کو ، ڈی سی او زکو اپنے آگے پیچھے دوڑاتے تھے۔۔ شراب، کباب و شباب کے رسیا تھے تو اختیار ملنے کے بعد انکا کیا حال ہوا۔سب نے دیکھ لیا، اور ہنوز دیکھ رہے ہیں۔ ایک قول جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب کیا جاتا ہے کہ جب کسی کے پاس مال و دولت اور اختیار آجاتا ہے تو وہ بدلتا نہیں بلکہ اسکی اصلیت سامنے آتی ہے۔ اور ہم نے بہت سے لوگوں کی اصلیت دیکھی۔ خان صاحب آپ کی سوچ بہت عمدہ تھی۔ مستقبل کے بارے میں جو خاکہ آپ کے ذہن میں تھا وہ یقیناً قابلِ تحسین تھا۔ لیکن ان چند گندی مچھلیوں کی وجہ سے آپ کوئی نمایاں کارنامہ سر انجام نہ دے سکے۔ خیبر پختون خواہ میں حکومت بنانے کے چھ ماہ بعد آپ نے کہا کہ پولیس کو آپ نے سیاست سے پاک کر دیا ہے۔ وہ کبھی کسی سیاستدان کے آگے پیچھے نہیں پھریں گے بلکہ اپنے علاقے میں امن و امان قائم کرنے کے لیے کام کریں گے۔ لیکن ہوا کیا؟ ایک سب سے بڑی مثال ضلع مانسہرہ میں اس وقت کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر جناب عبدالغفور آفریدی کی ہے۔
جنھوں نے مانسہرہ میں وہ امن قائم کیا کہ اس سے پہلے شاید کراچی میں ہی اسکی مثال ملتی ہو جنرل نصیراللہ بابر کے زمانے میں یا پھر موجود رینجرز کے ایکشن میں۔ مذکورہ ڈی پی او نے مجرموں کو چن چن کر گرفتار کیا۔ ان کو سزائیں دلوائیں۔ لیکن جب انھوں نے بڑے مجرموں پر ہاتھ ڈالا تو انہیں ایک نئے سیاستدان ہی کے دبائو پر تبدیل کر دیا گیا۔ بہانہ کیاگیا کہ ان کو شولڈر پروموشن دی گئی ہے اور انہیں ڈی آئی جی بنا کر ڈیرہ اسماعیل خان بھیج دیا گیا ہے۔ خان صاحب، وہ سیاستدان کون تھا، یہ آپ جناب آفتاب شیرپائو صاحب سے پوچھ سکتے ہیںکہ اس سیاستدان کے پاس اس وقت پانچ وزارتیں تھیں۔ جو اپنے علاقے میں ٹمبر مافیا کا بادشاہ تھا۔ آپ خود سوچیں، آپ نے اس طرح کے کتنے فیصلے اپنی مرضی سے کیے۔
نہیں عمران خان صاحب نہیں۔ آپ نے اگر واقعی نیا پاکستان بنانا تھا اور ابھی بھی یہی ارادے ہیں۔ پاکستان کے تشخص کو دنیا میں بہتر سے بہترین کرنا ہے۔ قرضے جیسی لعنت سے پاک کرنا ہے، تو آپ نے پاکستان کے مفاد میں جب بھی فیصلے کرنے ہیں تو پھر ان پر ڈٹ بھی جانا ہے۔ آپ نے پھر پاکستان کے علاوہ کسی کا مفاد نہیں دیکھنا۔ آپ ہی کے پارٹی ممبرز آپ کو ڈرائیں گے کہ اگر ڈرون حملے بند کرا دیے تو امریکہ پاکستان کی امداد روک دے گا۔ جاپان سے الیکٹرانکس کا سامان نہیں آئے گا۔ لگڑری گاڑیاں نہیں آئیں گی۔ تو میں کہوں گا کہ خان صاحب کیا فرق پڑتا ہے؟ خان صاحب، کیا آپ کی پارٹی والے اس طرح کی بات کر کے ملک سے غداری کرنے کے زمرے میں تو نہیں شامل ہو جائیں گے؟ سوچ لیجئے گا۔
اللہ نے آپ کو ایک صوبے میں حکومت عطا کر دی۔ یہ سمجھیں کہ آپ کا ٹرائل ہے۔ اگر آپ پانچ سال، جس میں سے کچھ ماہ کم تین سال گزر چکے ہیں، عمدہ طریقے سے گزار دیتے ہیں کہ جب دنیا میں بہترین نظام حکومت کا سروے ہو، تو صوبہ خیبر پختونخواہ اول درجے پر آئے، تب ہم کہیں گے کہ ہاں، آپ نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا۔ لیکن ابھی تک ہمیں ایک شوکت خانم ہسپتال کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ یا پھر مانیٹرنگ ٹیمز جو صرف اساتذہ کو چیک کرتی پھر رہی ہیں کہ وہ وقت پر سکول آتے ہیں یا بچوں کو اچھی طرح سے پڑھاتے ہیں، مزید کچھ بھی نہیں۔ کرپشن بھی اسی طرح جاری ہے، اور مرضی سے تبادلے بھی۔ لیکن ابھی بھی آپ کے پاس دو سال باقی ہیں۔ ایک منٹ کے زلزلے سے دنیا کا نقشہ بدل سکتا ہے تو دو سال میں اپ خیپر پختون خواہ کے حالات بھی بدل سکتے ہیں۔ عوام الناس کو فوری اور صاف انصاف مہیا کریں۔ سالوں اور عشروں سے جو مقدمات لٹکے ہوئے ہیں کہ مقدمات کی تعداد ہی اتنی زیادہ ہے، ان کو انصاف پر حل کروائیں۔ کوئی نظام ایسا بنائیں کہ کوئی بھی مقدمہ ہو، یا پولیس کے پاس رپورٹ درج ہو، اس کا حل دنوں میں نکلے۔ کیا فرق پڑے گا۔ خود دیکھ لیجئے گا۔
صحت و صفائی کا سلسلہ بہترین ہو۔ پاکستان میں شاید ایک اسلام آباد کے علاوہ کسی بھی دوسرے شہر میں نکاسیٔ آب کا نظام بالکل بھی نہیں۔ گھروں کا پانی گلی محلہ کی سڑکوں پر بہہ رہا ہوتا ہے۔ کیا صفائی سے رہنا عوام کا حق نہیں۔ آپ نکاسیٔ آب کا نظام بہتر بنوائیں۔ صوبہ کے ہر شہر کا سروے کرائیں کہ کس کس علاقے میں یہ نظام بالکل بے کار ہے۔ ہر ضلع میں ضلعی دفاتر قائم ہیں۔ ٹیم ایم بھی اور سول ورکس والے بھی۔ البتہ یہ بات ذہن میں رہے کہ کچھ علاقوں میں کچھ مخصوص لوگ اپنی اجارہ داری ہمیشہ قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے گھر سے نکلنے والے گندے، غلیظ پانی کا بہائو نیچے کی طرف تو کر دیتے ہیں، لیکن اپنے گھر کے سامنے گزرنے والی گلی سے یا سڑک سے نالہ نہیں بنوانے دیتے۔ کیوں؟ وجہ نامعلوم۔ آپ کو وقت کے ان فرعونوں سے بھی ٹکرانا ہے۔ عوام کو اگر مفت یا کم سے کم قیمت پر علاج اور ادویات نصیب ہوں۔ ہسپتالوں میں، ڈسپنسریوں میں ڈاکٹر ہر وقت موجود ہوں، اور دل سے مریضو ں کو چیک کریں۔ صرف دل پر سٹیتھو سکوپ رکھ کر مریض کی ٹانگ کا درد نہ معلوم کریں۔ اور جس علاقے میں مریضوں کا رش زیادہ ہے، وہاںپر ڈاکٹروں کی تعداد بڑھائیں۔ دوائیں اصلی دستیاب ہوں۔ اور ہر وقت ہر قسم کی دوائی موجود ہو۔ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ لوگ آپ کو دعائیں نہ دیں۔ ہاں اس کیساتھ آپ کی شوکت خانم ہسپتال چاہے لاہور کی ہو یا پشاور کی، اس میں اگر غریب لوگوں کو بھی مفت علاج ہو تو پھر مزید جھولیاں بھر کر دعائیں ملیں گی۔ ورنہ شوکت خانم کمائی کا ذریعہ تو ہے ہی۔
اگر آپ کی ان پالیسیوں کی وجہ سے امریکہ امداد بند کر دے گا تو کیا فرق پڑتا ہے؟ ہم جو ہر سال کروڑوں اربوں ڈالر کی صورت میں میں قرضہ کی مد میں واپس کرتے ہیں ، ہم وہ ادا نہ کریں تو کیا فرق پڑے گا۔ اگر تو سابقہ حکمرانوں میں سے کسی نیپاکستان کو آئی۔ایم۔ ایف ، ورلڈ بینک یا امریکہ کے پاس گروی نہیں رکھا ہوا تو امداد بند ہونے پر اور قرضہ واپس نہ کرنے پر یہ کیا کر لیں گے۔ زیادہ سے زیادہ یہی نا کہ ساری دنیا کے یہ نام نہاد ٹھیکیدار دنیا میں تنہا کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہم پر مختلف حیلے بہانوں سے پابندیاں لگوانے کی کوشش کریں گے۔لیکن اس وقت میں حکمرانوں سے دست بستہ عرض کروں گا کہ آپ اللہ کا نام لے کر ایسے اقدامات کیجئے کہ پاکستان کے جو قریب ترین ترقی یافتہ ممالک ہیں، جو امریکہ، برطانیہ، انڈیا، آئی ایم ایف کا نہیں کھاتے، آپ ان سے رابطے میں رہیں، ان سے معائدے کریں، ان کو اپنی ٹیکنالوجی دیں، ان سے ان کی ٹیکنالوجی دیںتو پھر کیا امریکہ، برطانیہ، انڈیا اور آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک کوئی بھی کچھ نہیں کر سکے گا۔
الحمد اللہ پاکستان ہر چیز میں خود کفیل ہے۔ اگر پاکستان میزائل بنا سکتا ہے۔ خالد ، ضرار جیسے ٹینک بنا سکتا ہے۔ جے ایف 17 تھنڈر طیارے بنا سکتا ہے تو باقی چیزیں بنانا کون سا مشکل ہے۔ اصل میں امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے ہمیں کاہلی پر لگا دیا ہے۔ اور کچھ یوں لگا دیا ہے کہ ہمیں ان باتوں کی طرف سوچنے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔ اگر پاکستان کی بہتری کے لیے کچھ سوچتے بھی ہیں تو اس میں بھی کمیشن مافیا آگے بڑھ کر ساری سوچ پر پہرے بٹھا دیتا ہے۔ پھر ہمیں فرصت ہی نہیں ملتی کہ کہیں ہم کسی بھی معاملہ میں خود کفیل نہ ہو جائیں۔ اور پہلے اپنے پاو?ں پر کھڑے ہو کر ، پھر دوسری اقوام کی مدد بھی نہ شروع کر دیں جس کی وجہ سے ان ٹھیکیداروں کی بادشاہی ختم ہو جائے۔ جیسا کہ چین نے کیا۔ امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی اجارہ داری ختم ہونے کا ڈر ہے نا۔۔۔
جناب وزیرِ اعظم صاحب، یہ سب اگرچہ عمران خان صاحب کے لیے بظاہر لکھا گیا ہے، لیکن آپ تو بہت تجربہ کار ہیں۔ مواصلات کے ساتھ ساتھ متوازی طور پر اگر دیگر مسائل پر بھی انکے وزارتوں کے ذریعے توجہ دیں تو کیا ٢٠١٨ تک سارے کام ایک ساتھ نہیں ہو سکتے؟ کیا دنیا میں پاکستان کا نام اونچا نہیں ہو گا۔ ابھی اگر لاہور میتھین پیدا کرنے میں دنیا میں دوسرے نمبرپر آسکتا ہے تو صفائی پسند ماحول میںبھی تو اول نمبر پر آسکتا ہے۔ ہمیں بس ایک پاکستان چاہیے، جس میں یہ سب کچھ ہو۔ نہ ہو تو ناانصافی نہ ہو، کرپشن نہ ہو، گندگی نہ ہو، قرضہ نہ ہو، سود نہ ہو، ظلم و زیادتی نہ ہو۔۔ ہو تو تعلیمی نظام سادہ، آسان لیکن دنیا سے بھرپور مقابلے والا ہو، انصاف کا بول بالا ہو، عوام کو رہائش، بجلی، پانی، گیس ، سب کچھ آسانی سے ملے۔ صحت و صفائی ہو، ہسپتالوں میں دوائی ہو۔سب سے بڑھ کر اگر اسلام کے نفاذ کا اعلان نہ بھی کیا جائے، لیکن اسلا م کی تعلیمات کو اپنا کر انہیں ہی نافذ کر دیا جائے توہمارے اس خوبصورت پاکستان میں ناممکن تو کچھ بھی نہیں ہے۔
تحریر:ابن نیاز