تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ
حکومت پنجاب عوام کی خدمت میں دن رات کوشاں ہیں۔ ہر طرف سٹرکوں کی تعمیر کی جارہی ہے تاکہ عوام کو سفری سہولیات میسر آسکیں۔شیخوپورہ، گوجرانوالہ، نارووال اور سیالکوٹ میں حکومت پنجاب نے جس طرح ترقیاتی کام کروائے اس کی تاریخی نہیں ملتی۔ تو پھر عوام کا حکومت سے کیا شکوہ ہے۔
اس سلسلے میں ایک سروے کا جائزہ لیتے ہیں۔جس میں پاکستان کے آئین کی روح سے عوام کو کون کون سی سہولیات حکمران نے فراہم کی ہیں۔ ٹریفک حادثہ،ڈکیتی مزاحمت،سیاسی رنجش اور کبھی انڈین فوج کی فائرنگ وغیرہ ،وغیرہ سے ان خوبصورت علاقوں اور سٹرکوں پر موت کا راج قائم ہے۔
آئین پاکستان کو پاکستان کا دستور اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین مجریہ 1973ء بھی کہتے ہیں۔ آئین کے مطابق” 1۔پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت ہو گا وزیراعظم حکومت کا سربراہ ہوگا اور اسے اکثریتی جماعت منتخب کرے گی۔2اسلام پاکستان کا سرکاری مذہب ہے اور صدر اور وزیراعظم کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔3۔پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔4۔آئین میں ترمیم کے لیے ایوان زیریں میں دو تہائی اور ایوان بالا میں بھاری اکثریت ہونا ضروری ہے۔5۔اردو پاکستان کی قومی زبان ہے۔6۔عوام کومواقع دیے جائیں گے کہ وہ اپنی زندگیاں قرآن وسنت کے مطابق بسر کریں۔7۔عدلیہ آزاد ہوگی۔
عدلیہ کی آزادی کی ضمانت دی جاتی ہے۔8۔ قرآن مجیدکی اغلاط سے پاک طباعت کے لئے خصوصی انتظامات کئے جائیں گے۔9۔عصمت فروشی، جوائ، سود اور فحش لٹریچر پر پابندی عائد کی جائے گی۔10۔عربی زبان کو فروغ دیاجائے گا طلباء وطالبات کے آٹھویں جماعت تک عربی کی تعلیم لازمی قرار دی گئی۔11۔آئین کی روسے مسلمان سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کو ایک مانے،آسمانی کتابوں پر ایمان لائے ،فرشتوں ،یوم آخرت اور انبیائے کرام پر ایمان رکھے اور حضوراکرمۖ کو اللہ کا آخری نبی تسلیم کرے۔جو شخص ختم نبوت کا منکر ہوگا وہ دائرہ اسلام سے خارج تصور کیا جائے گا۔”
اوراسی آئین کے مطابق عوام اپنے نمائندوں انتخاب کرتے ہیں۔شیخوپورہ،گوجرانوالہ،نارووال اور سیالکوٹ سے منتخب ہونے والے نمائندوں میں”گوجرانوالہ کے حلقہ این اے95۔عثمان ابراہیم۔این اے ۔96 انجینئرخرم دستگیرخان،این اے 97۔چوہدری محمود بشیرورک،این اے98میاں طارق محمود،این اے99۔راناعمرنذیرخان،این اے100۔اظہرقیوم،سیالکوٹ کے حلقہ این اے110۔خواجہ محمدآصف ،این اے111۔چوہدری ارمضان سبحانی،این اے112،رانا شمشاد احمدخان،این اے113۔سیدافتخارالحسن،این اے114۔زاہدحامد ،نارووال کے حلقہ این اے115۔میاں محمد رشید،این اے116۔دانیال عزیز،این اے117۔احسن اقبال۔۔۔شیخوپورہ کے حلقہ این اے131۔راناافضال حسین،این اے132۔رانا تنویرحسین،این اے133۔میاں جاوید لطیف،این اے134۔سردارمحمدعرفان ڈوگر شامل ہیں۔
اسی طرف گوجرانوالہ سے ممبرصوبائی اسمبلی پنجاب حلقہ پی پی91۔عمران خالد بٹ، پی پی92۔محمدنوازچوہان، پی پی93۔چوہدری اشرف علی انصاری، پی پی94۔عبدالروف مغل، پی پی 95۔پیرغلام فرید، پی پی96۔محمدتوفیق بٹ، پی پی97۔محمدناصرچیمہ، پی پی98۔چوہدری محمداقبال، پی پی99۔چوہدری قیصراقبال سندھو، پی پی100۔چوہدری اخترعلی خان، پی پی101۔محترمہ ریاض امانت علی ورک، پی پی102۔چوہدری رفاقت حسین گوجرایڈووکیٹ، پی پی103۔اکمل سیف چٹھہ، پی پی104۔شوکت منظور چیمہ ، سیالکوٹ کے حلقہ پی پی121۔رانا محمداقبال ، پی پی122۔چوہدری محمداکرم، پی پی123۔خواجہ محمدمنشیاء اللہ بٹ، پی پی124۔رانا عبدالستار خان، پی پی125۔چوہدری طارق ، پی پی126۔رانالیاقت علی، پی پی127۔منوراحمدگل، پی پی128۔رانامحمدافضل، پی پی129۔چوہدری محسن اشرف، پی پی130۔محمدآصف باجوہ، پی پی131۔چوہدری اشرف جاوید ورائچ،نارووال کے حلقہ پی پی132۔اویس قاسم خان، پی پی133۔ابوحفص محمد غیاث الدین، پی پی134۔منان خان، پی پی135۔خواجہ محمدوسیم، پی پی136۔شجاعت احمدخان،شیخوپورہ:پی پی162۔محمدحسین رضا،پی پی163۔خرم اعجازچٹھہ،پی پی164۔پیرمحمداشرف رسول،پی پی165۔چوہدری اصغرمنڈا،پی پی166۔فیضان خالدورک،پی پی167محمدآصف خان سندھلیہ،پی پی168۔علی سلمان،پی پی169۔سجادحیدرگوجرشامل ہیں۔
ان علاقوں کی عوام کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے پولیس کیلئے سرکل اور تھانے قائم کئے گئے ہیں جن کی تفصیلا ت کچھ یوں ہے۔”شیخوپورہ:پولیس اسٹیشن ”اے”ڈویژن،”بی”ڈویژن اور تھانہ صدرشیخوپورہ۔۔سرکل صدرمیں 3،سرکل فیزوروالا میں3،سرکل مریدکے میں3،سرکل صفدرآباد میں 3تھانے موجودہیں ،سیالکوٹ سٹی سرکل میں7،صدرسرکل میں 7،ڈسکہ سرکل میں5،سمبریال سرکل میں2،سرکل پسرور میں6تھانے موجودہیں،نارووال: ہیڈکواٹرسرکل میں2 ،صدرسرکل میں5 ،ظفروال میں 3 ،شکرگڑھ میں 6تھانے موجود ہیں۔،،
پاکستان کے آئین کے مطابق غیر ملکی شہریت رکھنے والا شخص رکن پارلیمان نہیں بن سکتا لیکن اس قانون پر عملدرآمد انتالیس برس بعد شروع ہو،انیس سو تہتر کا متفقہ آئین جو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بنا، اس میں یہ شق شامل ہے لیکن ماضی میں سپریم کورٹ ہو یا الیکشن کمیشن، قومی اسمبلی ہو یا سینیٹ کسی نے اس پر عمل نہیں کیا۔آئین میں یہ پابندی صرف اراکین سینیٹ اور قومی اسمبلی کے لیے ہے جبکہ صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کے بارے میں اس آئینی شق میں کچھ نہیں کہا گیا۔
پاکستانی پارلیمان کے کل اراکین کی تعداد چار سو چھیالیس ہے لیکن اس میں کتنے دوہری شہریت رکھنے والے ہیں، اس کا ریکارڈ الیکشن کمیشن کے پاس ہے اور نہ کسی اور ادارے کے پاس۔ اکثر اراکین یہ معلومات چھپاتے ہیں کیونکہ انہیں نا اہلی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور الیکشن کمیشن سمیت کسی کے پاس کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں۔
اسی طرح ان علاقوں کی صورتحال ہے۔ عوام ٹرانسپورٹ سمیت مختلف گروپوں سرپرستی کا الزام سیاست دانوں اور پولیس عائد کرتی ہے۔لوگوں کا کہناہے تقریبا95فیصد پولیس ملازم حکمرانوں کے گھروں پر تعینات ہیں۔5فیصد پولیس ملازم لوٹ مارمصروف ہیں۔ ضرورت امر کی ہے کہ حکومت کو قانون کے مطابق عوام کو تحفظ فراہم کرے اور سیاستدانوں کی حفاظت پر تعینات پولیس ملازم کی تعداد میں کمی لائے۔ورنہ جرائم میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوگا۔ حکمران کوان حالات پر توجہ دیناہوگی،ورنہ یہ سرسبزعلاقے خون سے سرخ ہوتے رہیں گے۔ اور سٹرکوں پر موت کا راج قائم رہے گا۔
تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ