لاہور (ویب ڈیسک) پکچرابھی باقی ہے میرے دوست، اصل فلم انٹرول کے بعد اور پہلے سے زیادہ زبردست ہو گی اس لئے بوتل شوتل پی لیں چپس وپس کھا لیں، انٹرول کے بعد فلم بالکل نویں نکور ہو جائے گی۔ ہیرو ولن اور ولن ہیرو ہوں گے۔ ہدایتکار کہانی نویس ایسا ٹرن دیں گے کہ
نامور کالم نگار ایثار راناا پنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔چاہے آپ کو کہانی پسند نہ آئے سٹوری ضرور اچھی لگے گی۔ چیئرمین نیب نے فلم کا ٹریلر چلا دیا ہے وہ کہتے ہیں ہوا کا رخ بدل رہا ہے، ہم تو بہت پہلے سے کہہ رہے ہیں کہ تبدیلی کے دیوانوں، شیر کے پروانوں ہوا کسی کی نہیں ہوتی، ہوا تو بس ہوا ہے۔ جہاں ”ویکیوم“ دیکھتی ہے جگہ گھیر لیتی ہے۔ مجھے تو بڑے بڑے ہیرو زیرو ہوتے نظر آ رہے ہیں۔گھمسان کا یدھ ہونے جارہا ہے۔ ویسے تو مولے نوں مولا نہ مارے تو مولا نئی مردا۔ لیکن اس بار لگتا ہے کہ مولا اپنی موت آپ نہ مر جائے، یہ ملک انصاف کی بارودی سرنگوں پر بچھا ملک ہے جہاں غلط پاؤں رکھا ٹھاہ ہو جائے گا۔ عمران خان جس عزم سے آئے تھے ڈر لگتا ہے کہ ان کی واپسی ماضی کے وزرائے اعظم کی طرح درد ناک نہخ ہو۔ لیکن ایک بات ان سے ضرور کہوں گا، اگر ان کے سکرپٹ میں ہارنا لکھ دیا گیا ہے تو وہ لڑ کر ہاریں، ایک نظام جہاں قدم قدم پر بارودی سرنگیں بچھیں ہوں بندہ ننانوے پر پہنچ کر بھی سانپ سے ڈسا جا سکتا ہے۔ کسی نے کمہار سے پوچھا نمک بیچ آئے وہ بولا نمک تو نہیں بکا کھوتے نے شہر ضرور ویکھ لیا۔ کیا ہوا اگر خان صاحب کی تبدیلی کا سالٹ ہالٹ ہو گیا۔ اس چکر میں نجانے کتنوں کی موجیں لگ گئیں۔ اسلام آباد دیکھ لیا، اب اگر ہوا کا رخ بدلا تو کھوتوں کے کان ضرور کھڑے ہونے چائیں۔ رہے خان صاحب تو انہیں بات سمجھ آ گئی ہو گی کہ کرکٹ ٹیم چلانا اور میاندار جیسے عظیم کھلاڑی کی بھرپور مدد لے کر وسیم اکرم سے ٹیم آؤٹ کرانا کچھ اور ہوتا ہے لیکن سیاست کا میچ دوسرا ہوتا ہے۔ اس میں بسا اوقات ”ڈکی برڈ“ آپ کو کبھی بھی آؤٹ قرار دے سکتا ہے۔ میری دعا ہے ابھی اس وقت خان صاحب کی جیب کٹ جائے اس بہانے ان کی جیب میں بھرے سارے کھوٹے سکوں سے تو جان چھٹ جائے گی۔ ورنہ۔۔میں مارا جاؤں گا پہلے کسی فسانے میں۔۔پھر حقیقت میں مارا جاؤں گا۔۔۔مرنا ہی تو لڑ کر مرا جائے۔ کپتان ایک فائٹر ہے۔لیکن انہیں ہاتھ باندھ کر رنگ میں اتارا گیا ہے پھر ایک کونے سے مولانا فضل الرحمن، دوسرے سے زرداری، تیسرے سے نواز شہباز پنچ نہیں ماریں گے تو کیا ان کی پپیاں لیں گے۔چودھری برادران وہ عظیم کھلاڑی ہیں جو بظاہر ’ریلو کٹے‘ نظر آتے ہیں لیکن کوئی پتہ نہیں ہوتا کب وہ پیڈ باندھ کر اوپننگ شروع کر دیں وکٹ چاہے کتنی گیلی ہو بال چاہے کتنی سونگ ہو رہی ہو انہیں بال لفٹ کرنا آتا ہے چیئر مین نیب نے خوب کہا ہے کہ ہوا بدل رہی ہے ہمیں تو چودھری شجاعت کے وزیر اعظم پر سیدھے سیدھے بیانات کے باؤنسر سے اندازہ ہو گیا تھا۔ کہ اچانک چودھری صاحب ایک سو پچاس کلو میٹر کی رفتار سے کیسے باؤلنگ کر رہے ہیں۔ وہ ایویں شعیب اختر نہیں بنے کچھ تو ہے۔ بلکہ اگر یہ کہوں کہ میں نئی بولدی میرے وچ میرا یار بولدا تو غلط نہ ہوگا۔ خان صاب کو چودھری صاحب کے راگ مالکو نس کے پیچھے راگ دیپک کو سمجھنا چاہئے،ورنہ انکا راگ شبت کیرتن ہوجائے گا، حکومت کا ہنی مون پیریڈ ختم ہو چکا۔ اب بات اجی سینئے سے بہرے ہو گئے ہو کیا تک آ پہنچی ہے۔ میرے پیارے مولانا فضل الرحمن کی بات ڈسٹ بن میں نہیں سٹنی چاہئے کم از کم یہ بات جو وہ کہتے ہیں میں نے حکومت کی جڑیں کاٹ دی ہیں وہ نہ ایویں اسلام آباد گئے نہ ایویں اسلام آباد سے واپس آئے۔ اب وہ یہ تو نہیں بتائیں گے کہ یہ ”ایویں“ کون سی کھجلی ہے جو ہر حکمران کے خلاف اچانک اپوزیشن میں کسی نہ کسی کو ہو جاتی ہے۔ سنتا سنگھ چوری کے الزام میں پکڑے گئے، ان کا منہ کالا کر کے گدھے پر پھرایا جا رہا تھا۔ اچانک ان کی بیگم کی نظر پڑ گئی وہ رونے لگی سنتا سنگھ بولا نہ رو جھلیئے دو گلیاں رہ گئیاں تو گھر جا کے چا بنا میں آؤندا۔ اسے کہتے ہیں کانفیڈنس اور ہمارے مولانا کے لہجے سے جو اعتماد جھلک رہا ہے سچی بات ہے خانصاحب ڈریں نہ ڈریں ہمیں تو خوف آ رہاہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ وہ جو کہہ رہے ہیں بس ایویں ہے۔ایک طرف میاں صاحب آئین قانون انصاف کو اپنی جیب میں ڈال کر، توڑ کر پنجرہ اک نہ اک دن پنچھی کو اڑ جانا ہے گاتے یہ جا وہ جا ہوئے، وہ بیمار کیا ہوئے مجھے لگا اس نظام کی پلیٹ لٹس گر گئیں، انصاف کا ہو مو گلوبن تو زیرو ہو گیا۔ شکر ہے میرے نیلسن منڈیلا بحفاظت لندن چلے گئے۔ سنا ہے ایئرپورٹ پر وہ شہباز شریف سے گلا کر رہے تھے کہ ظالموں نے مجھے ملک میں انقلاب نہیں لانے دیا۔ ویسے شہباز شریف تو اپنے آخری خطاب میں یہ آفر کر گئے ہیں کہ وہ صرف چھ ماہ میں ملک کی کایا پلٹ دیں گے۔ ایک جن سنتا سنگھ کے روپ میں شراب خانے گیا۔ وہاں وہ درجنوں بوتلیں پی گیا،اس نے ساتھ بیٹھے سنتا سنگھ سے کہا یارنشہ نہیں ہو رہا۔ سنتا سنگھ بولا کیوں نہیں ہو رہا۔ وہ بولا کیونکہ میں ایک جن ہوں۔ سنتا سنگھ ہنس کر بولا سالیا ہن چڑھ گئی اے تینوں. ہمارے سیاستدان ماشاء اللہ جنوں کے جن ہیں، اقتدار کی وسائل کی دولت کی لوٹ مار ٹیٹیز قبضوں، کمیشنوں کی جتنی مرضی بوتلیں چڑھا لیں انہیں شرافت کا نشہ نہیں ہوتا۔ ملک کا بیڑہ غرق ہو چکا، غریب فاقوں سے اکتا کر مرنے پر آ گیا۔ نوجوان ڈگریاں جلا کر نشہ میں گم ہو گئے۔ لیکن افسوس قوم کے خدمت گزاروں کو چین نہیں وہ جب تک اس ملک کا بیڑہ غرق کر کے غرق ہونے کی تسلی نہیں کر یں گے انہیں سکون نہیں ملے گا۔ بیوٹی پارلر میں بیگم تیار ہو رہی تھیں حاجی صاحب میگزین پڑھ رہے تھے اچانک ایک خوبصورت خاتون نے انکا نرمی سے کندھا دبایا اور بولی چلو چلیں، حاجی صاحب گھبرا گئے، پسینہ و پسنیہ ہو گئے اور لڑکھڑاتے ہوئے بولے میں شادی شدہ ہوں۔ اندر میری بیگم ہے وہ بولی حاجی صاحب غور نال دیکھو میں اوہی آں، واہ رہے ہمارے بیس کروڑ حاجیو ہمارے سیاستدان ہر بار میڈیا کے پارلر سے تیار ہو کر سوہنے موہنے ہیرے مکھن بن کے آتے ہیں اور آپ میڈیا کی لیپا پوتی سے بنے ان خوبصورت چہروں کے پیچھے چھپے ماسی مصیبتوں کو پہچان ہی نہیں پاتے کون لوک او تسی۔