ہم ساڑے سات ارب انسان بندگان خدا جن کا تعلق سیارہ زمین سے ہے، عالمی حاکمان وقت سے دست بدستہ عرض گزار ہیں کہ ہمیں عام آدمی کا درجہ دیا جائے۔ عام شہری سمجھا اور تسلیم کیا جائے۔ اور ہمیں شرفاء اور مہذبین عالم کے اپنے اور اپنی مرضی کے رائج قوانین کے مطابق عام شہری کے حقوق دیے جائیں۔
ہم اہلیان سیارہ زمین گزشتہ سینکروں سالوں سے سے اپنا تشخص تلاش کرنے میں سرگرداں ہیں اور آج اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہم نہ عوام ہیں نہ عام شہری ہیں بلکہ کوئی انسانوں کے مشابہ چیز ہیں جس میں جان ہے اور وہ شرفاء وقت کے جیسی ہیئت کی حامل ہے۔ ہمیں عام شہری یا عوام کبھی نہیں مانا گیا اور نہ ہی کبھی اس بارے جانا گیا۔ ہمیں ایک ووٹ گردانا گیا اور ووٹ بھی ایسا کہ جیسے انگریزی میں کہتے ہیں کہ بیگرز آر نو چوزرز۔
ہمیں ووٹ کا حق تو حاصل ہے مگر یہ پتہ نہیں ہوتا کہ ہمارے ووٹ سے حکومت کس کی بنے گی۔ یہ ووٹ بھی نصف سے زیادہ عرصہ نہیں سمجھا گیا۔ ہماری آواز سلب خیالات منتشر اور سوچ مفلوج کر دی جاتی رہی۔ ہمیں بوجھ اٹھانے والے جانور کی طرح صرف بوجھ ہی دیا گیا۔ کبھی قرضوں کا تو کبھی مہنگائی کا۔ کبھی جنگ کا تو کبھی ڈرون حملوں اور بم دھماکوں کا۔
ہم غلام تھے ہمیں غلام ہی جانا اور غلام ہی مانا گیا۔ ہم خواص کے گھروں میں سبزیاں او گوشت ڈھوتے رہے۔ ان کے کارخانوں محلوں اور پلازوں کی تعمیر کے لئے بوجھ اٹھاتے رہے۔ اور جب یہ محلات کارخانے اور پلازے پایہء تکمیل کو پہنچے تو ہمیں ان کے پہرے اور رکھوالی پر لگا دیا گیا۔ ہمین چوکیدار بنا دیا گیا اور وہ بھی بہت کم کو۔ باقی پھر بھوک کی چکی میں جھونک دئے گئے۔ اپنے بھوکے بچوں کو روتا دیکھ کر برداشت نہ کر سکے تو ہم عوام یعنی غلام ساہوکاروں کے بنگلوں کے پہرے دار بننے کو تیار ہوئے۔ جاگیر دار کے بندہ بے دام بنے۔ ان کے کارخانوں کو اور ان کی جاگیروں کو اپنے بھوکے پیٹ سے اور اپنے ارزاں خون سے سینچتے رہے۔ فصلیں پکا کر کاٹ کر ان کے گوداموں میں بھرتے رہے۔ اور ہمارے بچے صرف دیکھتے ہی رہے کہ کب پیٹ بھر کے کھانانصیب ہو گا۔ وہ بھی ادھ موئے زندہ رہنے کے عادی ہوتے گئے اور ہم بھی زندہ لاش بن کر چلتے رہے۔ وہ بھی بھوکے ہی سوئے اور ہم بھی بھوکے ہی روئے۔
ہم ان تمام طبقات اشرافیہ کے جوتے پالش کرتے رہے۔ کپڑے استری کرتے ر ہے اور کرتے ہیں۔ ان کے بچوں اور کتوں کو نہلاتے ہیں۔ ان کے کتے درآمد شدہ کھانے کھاتے رہے اور ہمارے بچوں کو ہماری ہی محنت سے اگائی ہوئی گندم کی روٹی بھی نصیب نہ ہو سکی۔ ان کے پلازوں کے سریے موڑتے اور بجری ڈھوتے ہمارے سر گنجے ہو گئے مگر ہمیں سر چھپانے کو جگہ دستیاب نہ ہو سکی۔ ہم ان کے بچوں کو سکوؒ ل چھوڑتے رہے اور لاتے رہے مگر ہمارے بچے سکول کے گیٹ پر کم عمری میں ہی غبارے اور گولے بیچتے رہے۔
ہمارے سیاسی رہنما تو ووٹ لینے آتے ہیں اور ووٹ لیتے وقت ہماری آئیندہ نسلوں کی خوشحالی کی نوید سناتے رہے ہیں۔ جب اگلے الیکشن میں ہمارے پاس دوبارہ آتے ہیں تو ہماری حالت اور بھی بگڑ چکی ہوتی ہے۔ پھر بھی ہم ووٹ ڈالتے ہیں کیونکہ ہم ووٹ ہیں۔
ایسے حالات سے سمجھوتا کئے ہوئے ہوتے ہیں کہ پھرالیکشن آجاتے ہیں اور ہمیں مطالبہ کرنے پر مجبور کر جاتے ہیں۔ ہمارے سروں پر نہ جانے کیا کیا بار گراں رکھ دئے گئے ہیں کہ ہم صرف الیکشن کے دنوں میں کچھ ہلکا محسوس کر سکتے ہیں۔ شائد اس لئے کہ الیکشن کے دنوں ہمیں امیدوار کے کیمپ سے کبھی کبھی پیٹ بھر کر کھانے کو مل جاتا ہے اور ہم کچھ سوچنے لگ جاتے ہیں۔ اسی لئے آج بھی ہم اشرافیہ سے ملتمس ہیں کہ ہمیں غلامی سے نجات دیں۔ ہمیں خاص لوگوں میں شامل ہرگز نہ کریں بلکہ صرف اور صرف عام آدمی کا درجہ دے دیں۔ اس سر زمین کے کسی ملک کے آئین کے مطابق عام شہری کے حقوق دے دیے جائیں وہ ہی ہمارے لئے کافی ہوں گے۔ اگر پورے نہیں تو اتنے تو کم از کم عطا کر دیں کہ ہمارے بچے غلامی سے نجات حاصل کر سکیں۔
ہم عام آدمی بہت ممنون ہونگے۔