تحریر : عرفانہ ملک
تاریخ عظیم لوگوں سے بھری پڑی ہے جب ہم ان کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں دو قسم کے لوگ ملتے ہیں ایک گمنام اپنی سادگی اور سادہ دلی میں مست نظر آتے ہیں یہ لوگ کب آئے کب گئے کسی کو کچھ خبر نہیں۔اپنے گرد بنے ہوئے دائرے کے حصار میں شب و روز گزار کر چلے جاتے ہیں۔
دوسرے لوگ جو عظیم لوگ کہلاتے ہیں وہ عظمت کا سفر یعنی کہ کرب کے سفر سے گزرتے ہیں جب دنیا سوتی ہے تب وہ جاگتے ہیں قدرت نے تو سب کو یکساں خوبیوں سے نوازا ہے اور صفات سے بھی مگر کچھ لوگ بچپن سے الگ طرح کے ہوتے ہیں۔
یہ اپنی محنت کو اپنی کرامات بناتے ہیں اپنی لگن میں تو اتر اوراپنے سفر میں یکسوئی پیدا کرتے ہیں۔یہ چھوٹے ظرف کے لوگوں کا کام نہیں جو چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے اپنی منزلوں کی بلندیوں کو چھو سکیں ہم خود بھی تب کسی کام کا عزم کرلیںتو جلد ہی دل برداشتہ ہو کر کہتے ہیں۔
بس ہم سے نہیں ہوتا اور اپنی مقصدیت کو بدلتے بدلتے ہم خود بھی گمنامیوں میں گم ہوکر رہ جاتے ہیں۔مگر جب کوئی عظیم شخص عزم کرلے تو وہ اپنے ہاتھوں میں دئیے کو اٹھا کردوسروں کو روشنی دیے چلے جاتے ہیں۔چاہے ان کے ہاتھ میں کیوںنہ جل جائیں وہ اپنے عہدسے پیچھے نہیں ہٹتے اور کوئی بھی طوفان ان کو نہیں روکتا۔یہ سب ان کو ریاض سے حاصل ہوتا ہے۔
کسی سکول کی کمال نہیں اور نہ ہی مدرسے کی۔بلکہ اللہ کی دی ہوئی سوغات ہے ہاں میرا اشارہ اس میسحا کی طرف ہے جو اپنے دکھ چھپاتارہا اوردوسروں کے دکھ دورکرتاگیا۔دوسروں کے کام آنے والا وہ دیوتا جوانسان کاروپ میںتھا ۔اس کی شخصیت کسی تعارف کا محتاج نہیں عبد الستار ایدھی صاحب جو اب اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے۔
دنیا کاامیر ترین غریب آدمی جس کو ہم نے بچپن میں انتہائی سادھے حلئے میں دیکھا تھا۔اوریہ گمان بھی نہیںکیا تھا کہ وہ شخص ایک دن شہرت کی ایسی بلندیوں کو چھوئے گا۔رہتی دنیا یاد کرے گی۔درد کے صحرا میںرہ کر لوگوں کو خوش دی اپنے اشکوں کے چراغ جلائے بے بسی میں رہ کر لوگوں کو نوید حیات کے نسخے بتائے اس کی تشنگی کسی آب حیات سے کم نہ تھی۔
دنیا کو سیراب کرنے والا خودایک پیا س لے کر دنیا سے رخصت ہوگیا۔شاید اس نے یہ کبھی نہ سوچا ہوگا کہ آنے والی دنیا میں اس کے پرستار پیدا ہونگے۔
ایسا کشکول کی کہانی جو اس نے دوسروں کی مدد کے لئے اٹھایا وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کشکول کے چند سکوں میںآج اس کا سکہ بھی چلے گا۔اس ملک کو ایک ایدھی نہیں بلکہ ایدھی جیسے اشخاص کی ضرورت ہے۔