تحریر: شائستہ احمد
خالقِ کائنات نے جب کائنات اور انسان کو تخلیق کیا تو انسان کی تخلیق کا مقصد یہ تھا کہ وہ دنیاوی امور کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی عبادات بھی خوش اسلوبی سے ادا کرے٬اور عبادت بھی ایسی کہ پُختہ ایمان اور یقین کے ساتھ کہ جس کا کوئی ثانی نہ ہو٬۔
ورنہ اللہ تعالیٰ کو عبادت کیلیۓ فرشتوں کی کمی نہ تھی٬ ہمارے پیارے نبیﷺ کے دور میں صحابہ اکرام اجمعین کے بہت سے ایسے واقعات تاریخِ اسلام میں موجود ہیں ٬ اور ان کی دعاؤں میں ایسی تاثیر تھی ٬ کہ وہ جو بھی دعا مانگتے قبول ہوتی٬ بہت سے اولیاء اکرام بھی ایسے آئے کہ ان کے منہ سے نکلے الفاظ سچ ثابت ہوئۓ ٬ وجہ ان میں اصل چیز یقین کی طاقت تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ بڑہنے کی بجائے کم سے کم ہوتا گیا٬ اور آج ہم اس دوراہے پر کھڑے ہیں٬ کہ ہم اگر ساری رات کھڑے ہو کر بھی مانگتے رہیں تو دعائیں قبول نہ ہونے کا شکوہ کرتے سب دکھائی دیتے ہیں٬ بحیثیت مسلمان کے آج ہم سوچتے ہیں کہ پہلے دور میں مسلمانوں کی شانو شوکت اور جو عزت و مرتبہ تھا٬ آج وہ وقار اور مقام نہیں؟ اس وقت تمام دنیا میں ظلم و ستم مسلمانوں کے اوپر ہی ہے٬ لیکن ہم اپنی حالت پر غور کیوں نہیں کرتے ٬ کبھی ہم نے اپنے سے پہلے مسلمانوں اور اپنے درمیان موازنہ کیا ؟ کہ اعمال میں وزن کس کا زیادہ ہے؟ ہمارے اندر ایسی کونسی غلطی یا خامی ہے٬ کہ ہم پر اللہ کی باتیں نہ اثر کرتی ہیں اور نہ دعائیں دلوں کو نرم کرتی ہیں٬ اس کی بڑی وجہ غافل دل اور دین سے دوری ہے٬۔
یہ بات برحق ہے کہ غافل دل کی دعا قبول نہیں ہوتی٬ مثال کے طور پر اگر کوئی ہاتھ اٹھا کر دعا مانگ رہا ہے٬ اس یقین کے ساتھ کہ اس کا ربّ اس کی طرف متوجہ ہے٬ اور اس کی دعا سن رہا ہے٬ اور اگر اس کو اس بات کا یقین نہ ہوتا۔ تو اسکا دعا مانگنا یا نہ مانگنا سب برابر ہوتا٬ اسی طرح ایک کافر کو ایک بُت پر اتنا یقین ہے٬ کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کے تمام مسائل اس کے بُت حل کریں گے٬۔ وہ نہیں سمجھتا کہ اصل میں اللہ پاک ہیں جو ان کے مسائل کو حل کرتے ہیں٬ مگر شیطان نے ان کے دل اور ذہن میں بٹھا دیا کہ بُت پر ہی قیین کر اور اس سے ہی مانگ ٬ اور اس کا یہ یقین اس کے مسئلے کا حل کرواتا ہے٬ بُت بیچارے کہاں حل کر سکتے ہین جو خود پر بیٹھی مکھی تک کو نہیں اڑا سکتے٬۔
حدیثِ مبارکہ ہے کہ میرے بندے جیسے تم میرے ساتھ گمان کرو گے٬ میں تیرے ساتھ ویسا ہی معاملہ کروں گا٬ اللہ تعالیٰ فرامتے ہیں کہ اگر بندے کا یقین کامل ہو تو پھر جیسا یقین ویسی عطا ٬ اسی طرح حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آپﷺ کا ارشادِ مبارک ہے کہ اللہ پاک فرماتے ہیں٬ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔
پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں٬ اور اگر وہ مجمعے میں میرا ذکر کرتا ہے تو میں مجمع یعنی فرشتوں میں اس کا ذکر کرتا ہوں٬ اور اگر وہ میری طرف ایک بالشت بڑہتا ہے تو میں اس کی جانب ایک ہاتھ متوجہ ہوتا ہوں اور اگر وہ میری طرف ایک ہاتھ بڑہتا ہے تو میں دو اتھ اس کی طرف متوجہ ہوتا ہوں٬ اور اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں٬۔ تو میری بہنوں اور بھائیو!! اللہ پاک نے انسان وک اشرف المخلوقات بنایا ہے٬ اور انسان کیلیۓ ساری کائنات مسخر کر دی ہے٬
اور زمین کی وہ تمام چیزیں آرام و آسائش کھانے پینے کی تمال سہولتیں اٹھنے بیٹھنے کی قوت اور گزرو اوقات کی تما چیزیں انسان کے استعمال کیلیۓ پیدا کر دیں٬ الغرض کوئی نعمت ایسی نہیں جو اس نے پیدا نہ کی ہو٬ لیکن اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے صرف ای، خواہش ظاہر کی کہ میری عبادت کرو٬ اگر آپ سوچیں تو عبادت تو ہم اللہ ہی کی کرتے ہیں لی کناس میں فائدہ صرف ہمارا ہے۔
نماز ہم اللہ کیلیۓ پڑہتے ہیں٬ قبر میں منکر نکیر کے سوال و جواب سے ہم اس کی وجہ سے محفوظ رہیں گے٬ روزہ اللہ کیلیۓ رکھتے ہیں٬ لیکن جنت کے مستحق ہم بنیں گے٬ حج تو اللہ کیلیۓ کرتے ہیں لیکن اپنے فریضہ سے سبکدوش ہم ہوں گے٬ جہاد اللہ کیلیۓ کرتے ہیں لیکن حیات ابدی ہم پائیں گے۔
یعنی کہ عبادت کے جس شعبے میں جائیں گے فائدہ صرف ہمارا ہے٬
اور اس میں ہرگز ہرگز ہم گھاٹے میں نہیں رہیں گے٬ تو مسلمانو!!اگر ہم اپنا سر بارگاہ الہیٰ میں جھکا دیں تو روزِ قیامت دنیا اور آخرت میں تمام امتِ مسلمہ کواپنے پروردگار اور نبی پاک ﷺ کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا پڑے گا۔
تحریر: شائستہ احمد