تحریر : مریم توقیر
کچھ دنوں سے وہ نماز میں دلچسپی لینے شروع ہو گی تھی میں نماز کے لیے کھڑی ہوتی تو وہ بھی ساتھ کھڑی ہو جاتی جیسے جیسے میں کرتی ویسے ہی وہ کرتی ساری نماز نہیں آتی تھی اسکی آسانی کے لیے میں تھوڑا اونچاپڑھتی جتنی دیر میں بیٹھی رھتی وہ ساتھ بیٹھ کے پڑھتی ایک دن میں اسے بتایا دعا ضروری نہیں عربی میں ہی ما نگی جائے تم جس زبان میں مرضی مانگ سکتی ہو۔
بے شک نئے کپڑے مانگو چاکلیٹ مانگو سکول میں پہلا نمبر مانگو جو بھی مانگو گی وہ دے گا اس دن کے بعد وہ تسبیح کرتے ھوئیاتنے غور سے انگلیوں کے پوروں کے دیکھتی مجھے ایسا لگتا یقین اس کے اوپر نازل ھو رہاھے میں بڑی تھی اس سے لیکن یقین میں مجھ سے وہ بہت بڑی تھی شادی کیدو سال بعد ہی نا امیدی کو اپنیاوپر سوار کر لیا۔
روز خدا سے لڑنے بیٹھ جاتی رات کو اس وقت تک نہ سو پاتی جب تک اسکے آگے شکووں کے دفتر نہ کھولتی اسی جھگڑے میں جب تک وہ مجھے میٹھی نیند نہ سلاتا میری با تیں جاری رہتی ایک دن صبح اٹھی تو وہ خود ہی خود مسکرا رھی تھی پھر میرے پاس آکے بولی رات میں نے ایک خواب دیکھا ہے۔
میں آپکا اتنا پیارا بچہ دیکھا ہے پھر وہ سارا دن خوش رہی وہ پھر مجھ سے بڑی ہو گء اسے تو اپنی خواب پے بھی اتناہی یقین تھا جتنا اسے اپنے زندہ ھونے پے ہو اسی روز میں بیمار ھو گء موسم کا اثر تھا یاں کچھ دنوں سے کام زیادہ ہونے کا ڈاکٹر پاس گء تو اس نے مجھے بولا کسی چیز کا اثر نہیں آپ امید سے ھیں خوشی تھی کے میریاندر باہر پھوٹ رہی تھی
گھر آیء تو وہ مسکرا رہی تھی میں نےآپ کو بتایا تھا نہ میں نے خواب دیکھا ھے وہ لمحہ مجھے اور چھوٹاکرنے کے لیے کا فی تھا۔ یہ چھوٹے چھوٹیبچیھم سے یقین میں کتنے بڑے ہو تے ھیں ھم تو دعا کو بھی مایوسی کے کاسے میں ڈال کے مانگتے ھیں یقین اس کچے مٹی کے برتن کی طرح ھوتا ہے جو پانی کا ایک قطرہ نہ سہ پائے ھم نماز تو پڑھتے ھیں۔
لیکن یقین اور امید سے خالی نماز رب کے آگے جھکتے بھی ھیں لیکن ھمارا نفس کسی سخت چیز کی مانند اکڑا رہتا ہے یہ کہنے کو تو بچے ھیں لیکن ھمارے کچے یقین سے بہت بڑے ہوتے ھیں۔
تحریر : مریم توقیر