راولپنڈی (جیوڈیسک) انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو قتل کیس میں ان کی گاڑی کے ڈرائیور جاویدالرحمان کا بیان ریکارڈ کر لیا جس میں ڈرائیور کا کہنا ہے کہ اس وقت گاڑی کا سن روف ناہید خان کے کہنے پر کھولا گیا۔
انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج رائے محمد ایوب خان مارتھ نے سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو قتلکیس میں ان کی حادثے کا شکار گاڑی کے ڈرائیور جاویدالرحمان کا بیان ریکارڈ کر لیا جب کہ گواہ سابق ایس پی اشتیاق حسین شاہ کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے ان کا بیان ترک کر دیا گیا اور سماعت 14 ستمبر تک ملتوی کرتے ہوئے مذید ایک گواہ ڈاکٹر پروفیسر اعظم یوسف کو بھی نوٹس جاری کر کے طلب کر لیا گیا ہے۔
عدالت نے وزارت خارجہ کو بھی ایک خط ارسال کیا ہے جس میں حکم دیا گیا ہے کہ مقدمے کے گواہ امریکی صحافی مارک سیگل کے ایک یا 2 اكتوبر كو وڈیو لنک سے بیان ریکارڈ کرانے پر رضامندی ظاہر کرنے اور اس کی بیماری کے حوالے سے بھیجی گئی ای میل کی کاپی بھی پیش کی جائے۔
سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی گاڑی کے ڈرائیور جاوید الرحمان خان عدالت میں بیان دیتے ہوئے بتایا كہ وہ عرصہ دراز آصف علی زرداری کے پاس ملازم ہے اور ڈرائیونگ بھی کرتا ہے، بے نظیر بھٹو کی ملك واپسی پر ان کے زیر استعمال تمام گاڑیاں وہ ہی چلاتا رہا ہے جب کہ لیاقت باغ میں 27 دسمبر کے جلسے میں بینظیر بھٹو کو وہ ہی گاڑی میں لے کر گیا تھا اور جلسے کے اختتام پر واپسی کے لیے بے نظیر بھٹو کے علاوہ ان کے اس وقت کے سیکورٹی انچارج ایس ایس پی امتیاز احمد فرنٹ سیٹ پر بیٹھے تھے، پچھلی نشست پر بے نظیر بھٹو، مخدوم امین فہیم، ناہید خان بیٹھی تھیں۔
جاوید الرحمان نے عدالت کو بتایا کہ جونہی گاڑی لیاقت باغ کے گیٹ سے باہر نکلی تو عوام کا بڑا ہجوم ریلے کی شكل میں سامنے آگیا وہ اس دوران گاڑی کے بمپر سے ریلے کو ہٹا کر راستہ بنانے كی كوشش كرتا رہا مگر ہجوم نہ ہٹا اور اس دوران ناہید خان نے بے نظیر بھٹو کو باہر نکل کر ہجوم کو ہاتھ ہلانے کا مشورہ دیا جب کہ ناہید خان نے فوری گاڑی کا سن روف كھولنے کی کوشش کی مگر ان سے وہ نہ کھل سكا۔
جس پر انہوں نے بے نظیر بھٹو كے ملازم رزاق سے سن روف کھولنے کا کہا اور پھر ناہید خان نے ملازم کے ساتھ مل کر سن روف کھولا، ہجوم کی نعرے بازی کا جواب دینے کے لیے بے نظیر بھٹو گاڑی کے سن روف سے باہر نکلیں تواچانک فائر ہوا اور ساتھ ہی زور دار دھماکا بھی ہوگیا جس کے بعد بے نظیر بھٹو گاڑی میں گر پڑیں جب کہ دھماکے سے ہماری گاڑی کے ٹائر پھٹ چکے تھے اور گاڑی کو بھی شدید نقصان پہنچا۔
جاوید الرحمان کا کہنا تھا کہ پھٹے ہوئے ٹائروں کے باوجود بے نظیر بھٹو کو اسپتال پہنچانا چاہتا تھا لیکن گاڑی کا چلنا انتہائی دشوار ہوگیا جس پر بے نظیر کو فوری طور پر دوسری گاڑی میں منتقل كر کے جنرل اسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ پہنچتے ہی جاں بحق ہوگئیں۔