سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کو 9 سال بیت چکے ہیں،مقدمے کی 300سے زائد سماعتو ں کے بعد بھی قتل کے اس مقدمے کا
فیصلہ نہ ہو سکا ،اس دوران پیپلزپارٹی وفاق میں 5سال حکومت میں بھی رہی ۔
ستائیس دسمبر 2007 کو پاکستان کی 2 بار وزیراعظم منتخب ہونے والی بے نظیر بھٹو کو دہشت گردی کانشانہ بنایا گیا،قتل کیس کے 5 ملزمان اڈیالہ جیل میں قید ہیں جبکہ جنرل (ر)پرویز مشرف اور 2سابق پولیس افسران سمیت 3 ملزمان ضمانت پر ہیں، بیت اللہ محسود سمیت 7 اشتہاری ملزمان مارے جا چکے ہیں۔
بے نظیر بھٹو قتل کیس کی ابتدائی تفتیش پنجاب حکومت کی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم نے کی،بعدمیں تفتیش ایف آئی اے کی مشترکا تحقیقاتی ٹیم کے سپرد کر دی گئی۔ فروری 2008 میں کیس کا ٹرائل شروع ہوا،مگر اسکاٹ لینڈ یارڈ سے تحقیقات کرانے اور اقوام متحدہ کی تحقیقاتی رپورٹ کا انتظار کرنے کی حکومتی درخواست پر انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ٹرائل ڈیڑھ سال تک التوا کا شکار رہا۔
بے نظیر قتل کیس میں 6مختلف ججز نے 300سے زائد سماعتیں کیں،تفتیشی ٹیم نے 8مرتبہ چالان عدالت میں پیش کیے ، بے نظیر کے قاتلوں کو سزا دلانے کی کوشش کرنے والے ایف آئی اے پراسیکیوٹر چودھری ذوالفقار کو بھی 3 مئی 2013کو قتل کر دیا گیا۔
20 اگست 2013 کو جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف پر فرد جرم عائد کی گئی اس کے بعد کیس کی از سر نو سماعت کا آغاز ہوا، پرویز مشرف کے خلاف امریکی گواہ مارک سیگل کا بیان ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈکر کے اس پر جرح کی گئی،مقدمہ کے 141میں سے 67 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔
مقدمہ میں ایف آئی اے کے پراسیکیوٹرخواجہ امتیاز کے مطابق کیس اب منطقی انجام کے قریب ہے۔ ایف آئی اے نے پرویز مشرف کی حاضری سے استثنا کی رعایت ختم کر کے حتمی بیان قلمبند کرانے کے لیے انہیں عدالت طلب کرنے کی درخواست جمع کرا دی ہے تاکہ ملزمان کے حتمی بیانات کے بعد کیس کا فیصلہ سنایا جا سکے۔