وفاق میں وزیر مملکت کو چھوٹا وزیر کہتے ہیں۔ صوبے میں تو وزیر مملکت ہوتا ہی نہیں۔ ایک ایم پی اے نے وزیراعلیٰ کی منت کی تھی کہ مجھے وزیر نہیں تو وزیر مملکت (چھوٹا وزیر) بنا لیں۔ لوگوں کو کیا پتہ کہ وزیر بھی چھوٹا بڑا ہوتا ہے۔ وزیر مملکت اپنے آپ کو ساری عمر سابق وفاقی وزیر لکھتے ہیں میں بھی سابق صوبائی وزیر لکھا کروں گا طلال اور دانیال نے بھی بڑی کوشش کی مگر وزیر مملکت (چھوٹا وزیر) بننا بھی ان کے نصیب میں نہ تھا۔ طلال اور دانیال کا مقابلہ عمران خان جہانگیر ترین یا پی ٹی آئی سے نہیں ہے۔ ان کا مقابلہ ایک دوسرے کے ساتھ ہے۔ میری گذارش ہے کہ یا تو ان دونوں کو وزیر بنایا جائے بے شک چھوٹا موٹا وزیر ہی بنا دیا جائے ورنہ ان دونوں کا مقابلہ آپس میں شروع ہو جائے گا۔ مریم اورنگ زیب نے عمران خان سے پوچھا ہے کہ ساہیوال میں جلسہ تھا یا کارنر میٹنگ۔
مریم اورنگ زیب کو جواب دینا آ گیا ہے۔ پریس کانفرنس میں بھی سوال نہیں ہوتے۔ ہر سوال کے اندر جواب موجود ہوتا ہے۔ صحافی سوالوں کے ساتھ سیاست کھیلتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ آخری سوال کے اندر پورا جواب موجود ہوتا ہے مگر پریس کانفرنس میں آخری سوال کا فیصلہ جواب دینے والا سیاستدان کرتا ہے۔ اسی لئے پریس کانفرنسیں بہت کرنا پڑتی ہیں۔ موجودہ دور میں تو پریس کانفرنسیں بہت زیادہ ہو رہی ہیں۔
عمران خان اختلافات کی وجہ سے ناراض رہتے ہیں۔ ان سے ایک اختلاف یہ ہے کہ وہ پریس کانفرنسیں بہت کرتے ہیں۔ وہی سوال وہی جواب۔ انہوں نے قطری شہزادے کے خط کا اتنا تذکرہ کیا ہے۔ لگتا ہے کہ یہ خط ہمارے نام لکھا گیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ بڑے عرصے سے کسی نے برادرم شیخ رشید کہتے ہیں کہ ایک اور قطری خط آنے والا ہے۔ عجیب صورتحال ہے کہ آج کل خط کا زمانہ نہیں رہا۔ آج کل ایس ایم ایس کیے جاتے ہیں جو فوراً مل جاتے ہیں۔ شاید قطر میں ابھی موبائل متعارف نہیں ہوا مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ وہاں نواز شریف موبائل کی فیکٹری لگائیں۔
وہ کیسے شہزادے ہیں جو اس دور میں بھی خط سے کام چلاتے ہیں۔ جو کام شہزادوں کو درپیش ہوتے ہیں وہاں تو ای میل بھی کم پڑ جاتی ہیں پہلے تو پاکستان میں شکار کھیلنے کے لیے شہزادے آتے تھے اور خوب شکار کھیلتے تھے۔ اب نجانے کس قسم کا شکار ہے کہ قطری شہزادہ خبروں کا شکار بن گیا ہے۔ میری گذارش عدالت سے بھی ہے کہ وہ جلد ہی پانامہ لیکس کا فیصلہ کریں۔ ساری دنیا میں ہماری بے عزتی ہو رہی ہے۔ ہم محکوموں کی توہین ہو رہی ہے کہ ہم ایک کرپٹ ملک کے شہری ہیں۔ حکمرانوں کے حوالے سے یہ الزام انعام ہے۔ ہمارا کوئی حکمران اس ’’اعزاز‘‘ سے بچا ہوا نہیں ہے۔
اس طرح کے معاملے کا آج تک کوئی فیصلہ ہوا ہے۔ میں نے مقدمہ کو معاملہ کہا ہے کیا میاں نوازشریف کو پتہ نہیں ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ واضح طور پر کھلم کھلا کرپشن کے براہ راست الزامات بہت تکلیف دہ ہیں۔ آپ کی ساری کابینہ اس کی زد میں ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ اس سے پہلے کسی حکمران پر اس طرح کھلم کھلا الزامات لگائے گئے ہوں اور مقدمہ سپریم کورٹ میں ہو۔ اس میں نوازشریف کا سارا خاندان نام لے لے کے آ رہا ہے۔ البتہ کلثوم نواز کا نام کسی نے نہیں لیا بلکہ کلثوم نواز لیڈروں والی خصوصیات رکھتی ہیں۔ میں مریم نواز کے لئے بہت قدر رکھتا ہوں۔ انہوں نے فون پر بھی چند دفعہ بات چیت کی ہے۔ حسن نواز اور حسین نواز سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔
وہ ملک سے باہر کاروبار کر رہے ہیں۔ اپنے ملک میں کاروبار کیوں نہیں کرتے۔ ہم دوسروں سے تو کہتے ہیں کہ ملک کے اندر سرمایہ کاری کرو مگر خود بیرون ملک کاروبار کرتے ہیں؟ یہ بات ذاتی طور پر مرے لئے تکلیف دہ ہے۔ ان سب کا نام کرپشن کے حوالے سے پانامہ لیکس میں آ رہا ہے۔ یہ انتہا ہے تو یہ ابتدا کس نے کی تھی۔
میرا خیال ہے کہ قطر سے اربوں روپے سے بھرے ہوئے بادل قطری شہزادے نے پاکستان بھیجے تھے وہ سیدھے پاکستان آئے تھے۔ لاہور میں رائے ونڈ پہنچے اور بارش صرف نواز شریف کے گھر پر ہوئی۔ سب لوگوں نے دونوں چاروں بلکہ آٹھوں ہاتھوں سے پیسے سمیٹے۔ نواز شریف کے وکیلوں کو چاہئے کہ وہ اس کہانی کو سٹیبلش کریں تاکہ مقدمے کا جلدی جلدی فیصلہ ہو۔ جو فیصلہ ہونا ہے سب کو معلوم ہے۔ خواہ مخواہ کی ٹینشن کا فائدہ؟ مگر کچھ درد مند سیانے کہتے ہیں کہ اب کا فیصلہ برعکس بھی آ سکتا ہے۔