اس سال حج کے موقع پر وزارت حج اسلام آباد کی مستحسن کارکردگی، عمدہ انتظام اور ہر مقام پر فرض شناسی کے ساتھ عازمین حج کی مخلصانہ خدمت پر ہم وفاقی وزیرمذہبی امور اور ان کے مستعدرفقائے کار کودل کی گہرائی سے مبارکباد پیش کرتے ہیں۔اُمید ہے کہ حسن کارکردگی کایہ معیار مزید بہتر ہو گا اور ماضی کے بے رحمانہ حالات دوبارہ پلٹ کر نہیںآئیں گے۔دورحاضر میں کسی ملک کا کوئی بھی باشندہ امیگریشن کے طے شدہ طریقہ کارسے گزرے بغیر نہ ملک کی حدود سے نکل سکتا ہے اور نہ کسی ملک میں داخل ہوسکتا ہے۔ پھر اس طویل سفر کیلئے نقل و حمل اورسکونت واقامت کے مشکل انتظامات کا سرکاری بندوبست کے بغیر تصور نہیں ہوسکتا۔ وطن عزیز میں بھی بحمداللہ اس غرض کیلئے وفاقی سطح پر باقاعدہ وزارت حج قائم ہے یہ ادارہ ابتداء سے تکمیل تک مختلف مراحل کے انتظامات کرکے فریضۂ حج کی ادائیگی میں عازمین حج کی معاونت کرتاہے۔قابل ذکربات یہ ہے کہ پچھلے دو تین سال سے بحمداللہ ان انتظامات میں بہتری آئی ہے اورخاص طورپر اس سال کے انتظامات تو بہت عمدہ ، شاندار اور نہایت قابل تحسین تھے۔ جو احباب و اقارب اس سال سرکاری بندوبست کے تحت حج کا فریضہ ادا کرنے گئے تھے انہوں نے ان انتظامات پربہت مسرت اوراطمینان کا اظہار کیا کہ مصارف بھی پرائیویٹ حج آپریٹرز کے مقابلے میںبہت کم تھے اور وزارت حج کی طرف سے متعین خدّام حجاج کا قدم قدم پر مردو خواتین عازمین حج کے ساتھ ہمدردانہ تعاون، اچھا سلوک اور ضرورت کے ہرموقع پرفوری خدمت کی فراہمی نے مقامی انتظامیہ اور دیگر ممالک کے حجاج کو بھی حیرت زدہ کر دیا تھا۔یہاں دواہم امور کی طرف محترم وزیر مذہبی امور دیگر ذمّہ داران کی توجہ مبذول کرانا ضروری ہے کہ کچھ عرصے سے حج اور عمرے کاانتظام کرنے والے دفاتر اور ایجنسیوں نے باقاعدہ انڈسٹری کی شکل اختیار کرلی ہے۔ جن کے مطالبات اور واجبات کا بظاہر کوئی قاعدہ اور ضابطہ نہیں ہے۔ عمرے کے پیکیج میں ایئرٹکٹ اور رہائش کے علاوہ مزید خاصی رقم وصول کی جاتی ہے۔ جس کے بارے میں یہ کہا جاتاہے کہ یہ سعودی وزارت حج سے اپرول حاصل کرنے کی فیس ہے اورتعجب کی بات یہ ہے کہ رمضان کے قریب آتے آتے وقت کے ساتھ ساتھ اس فیس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، جبکہ سعودی سفارتخانے کی طرف سے جاری کردہ ویزے پر’’مجانا‘‘ یعنی بلامعاوضہ، لکھا جاتا رہا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ یہ کاروبار دونوں ممالک کی پرائیویٹ کمپنیوں کی باہمی سازباز کا نتیجہ ہے۔ وزارت مذہبی امور اس کا بھی نظم طے کرے اوراس لوٹ مار سے تحفظ فراہم کرے اور اگر کسی مرحلے پراپرول کے حصول سے متعلق کسی ادائیگی کامرحلہ ہے تو اس کو ضابطے میں لایا جائے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستانی اخبارات میں مملکت سعودیہ کے ذرائع کے حوالے سے یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ مملکت سعودیہ کی وزارت حج نے پہلی دفعہ عمرے پر جانے والوں کو معاف رکھا ہے۔ لیکن دوسری اورتیسری دفعہ عمرے کے ویزا کیلئے دو ہزار سعودی ریال کی باقاعدہ فیس عائد کردی ہے۔ آئل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے نیز دیگر عالمی حالات کی وجہ سے بلاشبہ اس کی اکانومی دبائو کا شکار ہے۔ لیکن اگر کسی اکنامسٹ نے مملکت کی معاشی حالت کی بہتری کیلئے حج اور عمرے پر فیس عائد کرنے کا مشورہ دیا ہے تو وہ نہ مسلمانوں کا خیر خواہ ہے اور نہ مملکت سعودیہ کا، حج اور عمر ہ کا تعلق صرف صاحب ثروت لوگوں سے نہیں۔ متوسط درجے کے مسلمانوں سے بھی ہے۔ جن کی دنیا میں پہلے طبقے کے مقابلے میں اکثریت ہے اور اسی طبقے کے لوگ زیادہ اس عبادت کی تڑپ رکھتے ہیں۔ اس غیر دانشمندانہ ٹیکس سے یہی طبقہ متاثر ہو گا۔ محرم ہوجائے گا اور اس سے بدگمانی اور بے چینی پھیلے گی۔اعلان کے بموجب عبادت پر ٹیکس لگانے کے اس فیصلے سے مملکت سعودیہ کی ساکھ خراب ہو گی اور عام مسلمانوں کے دلوں میں سعودی حکومت کیلئے خدمت حرمین شریفین کی وجہ سے جو احترام ہے وہ باقی نہیں رہے گا۔ ایسا نہ ہو کہ اس فیصلے کے خلاف عالمی سطح پر مسلمانوں میں بے چینی کی لہر دوڑ جائے۔ یہ دانشمندی اورعاقبت اندیشی نہیں ہو گی کہ چند پیسوں کی خاطر اپنی ساکھ کودائو پر لگایا جائے۔ ماضی میں بھی حجاز مقدس میں قائم ہر حکومت معاشی تنگی کے باوجود، امکانی حد تک عازمین حج و عمرہ کی خدمت میں پیش پیش رہی ہے اور یہ خیال کبھی کسی کونہ آیا کہ عبادت کے لئےآنے والوں پرٹیکس لگایاجائے۔ یہ مسئلہ عالمی سطح پر تمام مسلمانوں سے تعلق رکھتاہے اوربہت حساحسیت کاحامل ہے۔ اس کو نظر انداز کرنا ہر گز مناسب نہیں ہوگا۔ وزارت حج کے ذمہ داروں سے ہماری درخواست ہے کہ اعتماد میں لے کر اس فیصلے کے عواقب سے آگاہ کرکے واپس لینے پر آمادہ کیاجائے۔وطن عزیز میں بدعنوانی بدنظمی اورعوام سے بے رحمانہ سلوک کا جو ماحول ہے۔ اس میں عوام کے فلاح و بہبود کیلئے بہتر اور اطمینان بخش انتظامات یقیناً اچنبھے کی بات ہے۔ ماضی میں وزارت حج کا یہی ادارہ میگاکرپشن کیلئے بدنام رہاہے، اس مقدس عبادت کو بھی مال بنانے ،حجاج کرام کو لوٹنے اورخیانت کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے کے لئے استعمال کیا۔ یہاں تک کہ حرمین شریفین میں حجاج کیلئے کرایہ پرحاصل کی جانے والی عمارتوں میں بھی کروڑوں کا خورد برد ہوا۔ ان میں سے بعض واقعات کی اطلاع خود سعودی باشندگان نے حکومت پاکستان کو دی۔ ہم ایک دفعہ پھر ان مثالی خیر خواہانہ انتظامات پر و زارت مذہبی امور کے فرض شناس حکام کو دل کی گہرائی سے مبارک باد پیش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ مولائے کریم ان کو ملک و ملت کیلئے مزید مفید تر خدمات کی توفیق سے نوازے،آمین!
(صاحب تحریر استاذ الحدیث جامعہ دارالعلوم کراچی ہیں
بشکریہ جنگ