ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران دنیا بھر میں یہ خدشات پائے جا رہے تھے کہ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد دنیا میں اختلافات اور جنگوں کے امکانات میں اضافہ ہو جائے گا۔ یہ خدشات ٹرمپ کی لاابالی طبیعت اور غیر محتاط بیانات کی وجہ پیدا ہو رہے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی شناخت ایک سخت گیر اور بے لچک شخص کے حوالے سے ہو رہی تھی، تارکین وطن کو امریکا سے نکالنے کے دو ٹوک بیان اور امریکا میں آباد مسلمانوں کے حوالے سے سخت موقف کی وجہ سے یہ تاثر عام تھا کہ ٹرمپ دنیا کے لیے ایک سخت گیر حکمران ثابت ہو گا۔
روس اگرچہ اب سپرپاور نہیں رہا لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کہ روس آج بھی دنیا کی ایک بڑی طاقت ہے اور شام سمیت کئی محاذوں پر روس اور امریکا کے درمیان اختلاف رائے موجود ہے۔ اس تناظر میں یہ خدشات بے جواز نہیں تھے کہ ان دو بڑے ملکوں کے درمیان اختلافات شدت اختیار نہ کر لیں۔ روس کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد اور سوشلسٹ بلاک کی طرف سے سوشلزم سے دست برداری کے بعد اگرچہ ان دو بلاکوں کے درمیان نظریاتی اختلافات بے جواز ہو کر رہ گئے تھے، لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی سرشت میں چونکہ جنگوں کا کلچر رچا بسا ہوا ہے، اس لیے یہ خدشات باوزن تھے کہ ٹرمپ کی آمد کہیں دنیا کو ایک بار پھر اختلافات اور جنگوں کی طرف نہ دھکیل دے۔
ایسی مخدوش فضا میں روسی صدر پوتن کا یہ بیان کہ ’’روس کسی سے لڑائی نہیں چاہتا، ہم ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں‘‘ ایک حوصلہ افزا صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ روسی صدر پوتن نے کریملن میں اسٹیٹ آف دی یونین سے سالانہ خطاب کے دوران کہا کہ روس کسی سے لڑائی نہیں چاہتا، وہ کسی جغرافیائی سیاسی محاذ آرائی کا حصہ بننے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ لیکن اس مثبت بیان کے ساتھ روسی صدر نے یہ انتباہ بھی دیا ہے کہ روس اپنے مفادات کو زک پہنچانے کی کسی کوشش کو برداشت نہیں کرے گا۔
دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہم امریکا کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ پوتن نے شامی صدر بشارالاسد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ باغیوں کے خلاف روسی فوجیں صدر اسد کی فوجوں کے ساتھ مل کر ایک مثبت جنگ لڑ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی شامی صدربشار الاسد کے سخت خلاف ہیں اور اسے اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا القاعدہ سے بھی مدد لیتا رہا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دوستی اور ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش کے ساتھ ساتھ مختلف حوالوں سے روس اور امریکا کے درمیان جو اختلافات موجود ہیں کیا یہ اختلافات روسی صدر کی نیک خواہشات کے راستے میں دیوار بن کر حائل نہیں ہوں گے۔ روسی صدر نے کہا ہے کہ ’’اسٹرٹیجک مساوات‘‘ کو توڑنے کی کوئی بھی کوشش تباہ کن ثابت ہو گی۔ اسٹرٹیجک مساوات کا مطلب روس اور امریکا میں جوہری توازن ہے۔ ہماری جدید اور مہذب دنیا کا المیہ یہ ہے کہ طاقت کے توازن کا فلسفہ سرمایہ دارانہ نظام کا وہ حربہ ہے جو دنیا کے سر پر جنگوں کے خطرات روکنے کے ساتھ ساتھ دنیا کے سر پر تلوار کی طرح لٹک رہا ہے۔
ہندوستان اور پاکستان دو انتہائی پسماندہ ملک ہیں جن کی آبادی کا 50 فیصد حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے، جب تک پاکستان جوہری طاقت نہیں بنا تھا دونوں ملکوں کے درمیان طاقت کا توازن بگڑا ہوا تھا کیونکہ روایتی ہتھیاروں اور افواج میں دونوں ملکوں کے درمیان 1/5 کا فرق تھا اور اس فرق کی وجہ 1965ء اور 1971ء کی جنگیں لڑی گئیں۔ پاکستان نے جب ایٹمی ہتھیار بنانے میں کامیابی حاصل کر لی تو دونوں ملکوں کے درمیان اسٹرٹیجک توازن پیدا ہو گیا۔
یہ توازن اصل میں ایٹمی بلیک میلنگ ہے کہ اگر دشمن ملک جارحیت کی کوشش کرے گا تو فریق ثانی ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے میں کوئی تکلف نہیں کرے گا۔ ہماری جدید ترقی یافتہ اور مہذب دنیا جن خوبصورت لفظوں میں طاقت کے توازن کا فلسفہ پیش کرتی ہے وہ دراصل ایک بدترین بلیک میلنگ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں کے درمیان جو اختلافات ہیں کیا وہ مذاکرات کے ذریعے حل نہیں ہو سکتے؟ جب تک روس ایک سوشلسٹ ملک تھا دونوں بلاکوں کے درمیان ایک نظریاتی خلیج حائل تھی، کیونکہ سوشلزم اپنی اصل میں سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کا رقیب تھا۔
سرمایہ دارانہ نظام کرۂ ارض کی تاریخ کا وہ بدترین نظام ہے جس میں 80 فیصد سے زیادہ آبادی دو وقت کی روٹی سے محتاج ہوتی ہے، کیونکہ دو فیصد مراعات یافتہ طبقہ کرپشن کے ذریعے قوم کی 80 فیصد دولت پر قبضہ کرکے بیٹھ جاتا ہے۔ اس ظالمانہ عدم مساوات کو ختم کرنے کے لیے مارکس اور اینجلز نے سوشلزم کا نظریہ پیش کیا اور کرپشن اور ارتکاز دولت کی جڑ کو نجی ملکیت پر پابندی سے کاٹ کر پھینک دیا۔ اس نظام کے اس منصفانہ فلسفے نے دولت کے انبار جمع کرنے والے سرمایہ دار طبقے کو اس قدر بدحواس کر دیا کہ اس طبقے نے امریکا کی سرپرستی میں سوشلزم کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔
ٹرمپ امریکا میں آباد لاکھوں تارکین وطن کو طاقت کے زور پر امریکا سے نکالنا چاہتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکا میں مقیم تارکین وطن کو اگر ٹرمپ امریکا سے نکال دے تو مظلوم اور جنگ کے ستائے ہوئے غریب عوام کے ترک وطن کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ جب تک جنگیں جاری ہیں ترک وطن کا سلسلہ جاری رہے گا، خواہ ٹرمپ تارکین وطن کو طاقت کے ذریعے امریکا سے باہر نکال دیں۔ اگر تارکین وطن کو روکنا ہو تو پھر جنگوں کو روکنا ہو گا۔ کیونکہ جنگوں کی وحشت ناکیاں ہی عوام کو ترک وطن پر مجبور کرتی ہیں۔
دنیا کی ہر برائی سرمایہ دارانہ نظام کے پیٹ سے جنم لیتی ہے۔ پوتن امریکا سے دوستی کی کتنی ہی نیک خواہشات کی خواہش کریں جب تک سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے جنگیں اور اختلافات چلتے رہیں گے۔ اگر ٹرمپ اور پوتن دنیا کو پرامن اور خوشحال بنانا چاہتے ہیں تو طاقت کے توازن کے گھٹیا فلسفے کو چھوڑ کر معاشی انصاف کے فلسفے کو اپنائیں، پھر نہ انسانوں کے درمیان نفرتیں ہوں گی نہ ملکوں کے درمیان جنگیں۔ لیکن کیا دولت کے پجاری دنیا میں معاشی انصاف لانے میں مخلص ہو سکتے ہیں؟