تحریر: شہزاد عمران رانا
چونکہ میں خود بھی پیشہِ وکالت سے منسلک ہوں اس لئے میں نے 9 جنوری کو ہونے والے لاہور بار ایسوسی ایشن 2016-17 کے الیکشن کو کافی قریب سے دیکھا ہے ان الیکشن میں کل رجسٹرڈ ووٹر زکی تعداد 15620 تھی جن میں سے 5605ووٹرز نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیاجو ٹرن آئوٹ کے لحاظ سے پچھلے کئی انتخابات سے کافی بہتر تھا جس کی خاص وجہ نئے ووٹرز یعنی وکلاء کا اندراج یا اس شعبے سے منسلک ہونا بھی ہے ۔
صدر کے لئے عاصمہ جہانگیرگروپ کے ارشد جہانگیر جھوجہ اور حامد خان گروپ کے چوہدری تنویر اختر کے درمیان مقابلہ تھاجس میںا رشد جہانگیر جھوجہ نے3163 ووٹ اورچوہدری تنویر اخترنے2163 ووٹ حاصل کیے اس طرح ا رشد جہانگیر جھوجہ نے پورے 1000 ووٹوںکی لیڈ سے میدان مار لیا یاد رہے کہ آخری الیکشن میں ارشد جہانگیر جھوجہ، حامد خان گروپ کے چوہدری اشتیاق احمد خان سے صرف چھ ووٹوں سے ہار گئے تھے ۔ صدر کے عہدے پر توچند سالوں سے عاصمہ جہانگیرگروپ اور حامد خان گروپ میں ہی مقابلے ہوتا چلاآرہا ہے مگر باقی تمام نشستوں پر یہ دونوں گروپ مزید چھوٹے چھوٹے گروپوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں جن میں طاہر نصراللہ وڑائچ، سید فرہاد علی شاہ،رائے بشیر، اصغر گل،برہان معظم ملک ،جمیل اصغر بھٹی ، رانا انتظاراور فیض کھوکھر سمیت کئی گروپس قابلِ ذکر ہیں ۔
نائب صدر اور سیکرٹری کی دو دونشستوں پر کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا رہی تھی اور جن امیدواروںکوانتہائی فیورٹ قرار دیا جارہا تھا وہ الیکشن ہا ر گئے۔ نائب صدور کے انتخاب کے لئے کل9 امیدواران کے درمیان مقابلہ تھا جن میں سے صرف چا ر امیدواروں ایسے تھے جہنوںنے ایک ہزار سے زائد ووٹ لئے ان میں شاہد مقصود بھُلہ 1979ووٹ،رانا سعید انور 1681ووٹ،نوید چغتائی 1554ووٹ اور عرفان صادق تارڑ 1308ووٹ شامل ہیں اس طرح شاہد مقصود بھُلہ اور رانا سعید انوربالترتیب سینئر نائب صدر اورنائب صدرمنتخب ہوئے ۔ انتخابی مہم کے دوران عرفان صادق تارڑ کو نا ئب صدر کے لئے انتہائی فیورٹ قرار دیا جارہا تھااور نوید چغتائی کے بارے میں یہ کہا جارہا تھا کہ وہ بھی سب کو ٹف ٹائم دیں گے کیونکہ وہ آخری الیکشن میں صرف آٹھ ووٹوں سے شکست کھاگئے تھے ۔ویسے نائب صدر کی ایک نشست اور بھی ہے یعنی نائب صدر ماڈل ٹائون ،یہاں دوسری بار انتخاب لڑنے والے شہزاد خان کاکڑ اور دیپالپور بار سے لاہور ہجرت کرنے والے میاں نعیم حسن وٹو کے درمیا ن ون ٹو ون مقابلہ تھا جو شہزاد خان کاکڑ نے 470ووٹوں کی لیڈ سے جیت لیا ۔
سیکرٹری کی دونشستوں پرکل 12 امیدواران کے درمیان مقابلہ تھا جن میں سے صرف دو امیدوارہی ایک ہزار کے ہندسے تک پہنچ پائے جن میں نعیم چوہان 1338ووٹ اور شاہد نواب چیمہ 1113 ووٹ لے کربالترتیب سیکرٹری جنرل اور سیکرٹری منتخب ہوئے مگر الیکشن سے قبل عام رائے یہ تھی کہ انتخابی مہم کے لحاظ سے شاہد نواب چیمہ تیسرے نمبر پرتھے اور چوہدری عرفان علی کو انتہائی فیورٹ قرار دیا جارہا تھاجو پانچویں نمبر پر رہے۔اس کے بعد جوائنٹ سیکرٹری کے عہدے کی باری آتی ہے جس پر کل 5 امیدواران کے درمیان مقابلہ تھا جن میں سے صرف دو امیدوارہی ایک ہزار کا ہندسے کو کراس کر پائے یہ مقابلہ عدنان صدیق سندھو نے کل 507ووٹ وں کی لیڈ سے جیت لیا ۔فنانس سیکرٹری کی نشست پر کل 4امیدواران کے درمیان مقابلہ تھا جن میں سے تین امیدوارایسے تھے جنہوں نے ایک ہزارسے زائد
ووٹ لئے مگرکامیابی سے ہمکنار ہونے والی واحد خاتون عہدیدار رفعت طفیل ملک نے کل 2034ووٹ حاصل کیے یہ ان کا دوسراالیکشن تھا اس کے بعدباری لائیربری سیکرٹری کے عہدے کی ہے جس پر کل3 امیدواران کے درمیان مقابلہ تھا اور تینوں نے ہی
ایک ہزار سے زائد ووٹ حاصل کئے مگر اس نشست کی خاص بات اس نشست پر دوسری بار االیکشن میں حصّہ لینے والے 70 سال سے زائد عمر کے امیدوار سید صابر شاہ جو اپنے مدمقابل امیدوار سے کل 689ووٹوں کی لیڈ سے کامیاب ہوئے سید صابر شاہ نے کل 2233 ووٹ حاصل کئے پہلی بار سید صابر شاہ نے 2014-15 کے الیکشن میں حصّہ لیا مگر قسمت نے ان کا ساتھ نہ دیا کیونکہ اُس وقت بیلٹ پیپر پر ان کا نام پرنٹ نہیںہوا تھا مگرسید صابر شاہ نے اُس وقت بھی الیکشن لڑا ۔اس بار جب ان کی کامیابی کا اعلان ہواتو اُس وقت رات کے3:45 بجے کا وقت تھا میں بھی گھر واپسی کے لئے اپنی کار میں بیٹھنے ہی لگاتھا کہ مجھے مائیک آن ہونے کی آواز آئی تو میںاعلان سننے کے لئے رُک گیا جب سید صابر شاہ کی کامیابی کا اعلان ہوا تو اُس وقت بھی ڈھائی تین سو وکلا ء یعنی مختلف امیدواروں کے ساتھی وہاں موجود تھے ان میں سے شائد ہی کوئی ایسا ہو جس نے تالیاں بجانے میں حصّہ نہ لیا ہو۔سید صابر شاہ کی کامیابی پر ہمارے تمام ساتھی بہت خوش ہیں کیونکہ انہوں نے بڑے بہترین انداز میں الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی۔آخر میں آڈیٹر کے عہدے کی باری آتی ہے جہاں عمران ملک بلا مقابلہ ہی کامیاب ہوگئے تھے۔
ان انتخابات کی خاص بات اس کے نتائج ہیں کیونکہ دو ایسے امیدواروں کا کامیاب ہونا ہے جو اپنی انتخابی مہم میں کافی پیچھے تھے اور دو انتہائی فیورٹ امیدواروں کی ناکامی ہے مگر یہاںقومی سیاست کی طرح دھاندلی کا الزام نہیں لگایا جاتا بلکہ الیکشن ہارے والے امیدوار اس وقت اپنی غلطیوںکا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ آئندہ کامیابی سے ہمکنار ہوسکیں۔لاہور بار ایسوسی ایشن 2016 -17کے انتخابات کے نتیجے میں کامیاب ہونے والی کابینہ کے ٹیم لیڈر ارشد جہانگیر جھوجہ پروفشنل وکیل ہیں جو اپنی برداری اوراس شعبے کے تمام ترمسائل سے واقف ہیں اورہر وکیل کو اس بات پر بھی یقین ہے کہ ان کی باقی ٹیم بھی ان کا بھرپور ساتھ دے گی میں اس کالم کے اختتام سے قبل ارشد جہانگیر جھوجہ اور ان کی ٹیم کی کامیابی کے لئے دعا گو ہوں اور نیک تمنائوں کا اظہار کرتا ہوں ۔
تحریر: شہزاد عمران رانا