تحریر: ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری
تعلیم کا بنیادی مقصد معرفتِ ذات ہے یہ انسان اور اس کی ذات کے درمیان ایساپل ہے جس کے قائم ہونے سے انسان کی شخصیت کی تجدید اور نکھار کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور پھر انسان کی شخصیت روحانیت کی منازل طے کرنا شروع کر دیتی ہے۔ انسانیت کیلئے تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریمﷺ پر اللہ کی طرف سے جس پہلی آیت کا نزول ہْوا اسکی ابتدا بھی ”اقرا“ یعنی پڑھ لفظ سے ہوئی- تاکہ پڑھنے کی برکات سے تم سیدھی راہ اختیارکر سکو۔ اور قیامت کے دن اپنے خالق کے حضور پیش ہونے کا سلیقہ جان جاو۔ اور اللہ کی اطاعت کے سبب اس کی قدرومنزلت کو پہچان کر اس کی عطا کردہ نعمتوں کا مودبانہ طریقے سے شکرادا کرنا سیکھ جاو۔ اور پھر ہم تم پر مذید مہربان ہو کر اور بھی شفقتیں فرمائیں گے۔
یہ اور ایسی بہت سی دیگر پوشیدہ وجوہات کو اجاگر کرنے کے لئے پڑھنے، سیکھنے اور علم حاصل کرنے کی طرف انسان کومتوجہ کرنا اللہ تعالی نے اپنی ذمہ داری سمجھا۔ اور کہا کہ ”اقرا،،۔ اور یہ اللہ تعالی کا سرورء کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ نہیں بلکہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے حکم تھا جس سے آج تک بتسلسل و تواتر انسان اور بالخصوص مسلمان اس کی افادیت سے استفادہ حاصل کر رہئے ہیں اور انشاءاللہ عدالتءخداوندی کے حضور بھی سرخرو ہونگے۔۔ یورپ میں اعلیٰ تعلیم کا پہلا ادارہ تو افلاطون نے یونان میں قائم کیا تھا لیکن بعد میں 330 قبل مسیح میں مصر کا شہر سکندریہ وجود میں آنے کے بعد درس و تدریس کا مرکز بن گیا اور اس کو گہوارہ فکری گردانا جانے لگا
یہ بالکل ٹھیک بات ہے کہ تعلیم کا بنیادی مقصد معرفتِ ذات ہے جس کے قائم ہونے سے انسان کی شخصیت کی تجدید اور نکھار کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور پھر انسان کی شخصیت روحانیت کی منازل طے کرنا شروع کر دیتی ہے چونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے ربّ کو پہچانا۔ ایک بشر جب تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر خودگر اور خود گیر شخصیت کا حامل ہو جاتا ہے تو پھر اسکی ماحول سے مکالمے کی راہ بھی ہموار ہو جاتی ہے۔ اسکے بعد انسان تخلیق و تجدید کا ایک قابل فخر سرچشمہ بھی بن کراُبھر سکتا ہے۔ ایسے تعلیم یافتہ افراد مہذب معاشروں کو جنم دیتے ہیں اور پھر پڑھے لکھے معاشروں کے گلستان میں امام غزالی، علامہ اقبال اور آئن سٹائن جیسے پرمہک پھول کھلتے ہیں۔ افراد ہی چونکہ زمانوں کے نمائندے ہوتے ہیں اس لئے جن معاشروں میں مذکورہ بالا دانشور، محقق اور مدبر ابھر کر سامنے نہیں آتے وہ معاشرے جمود کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تعلیم یافتہ معاشروں میں افراد کی قدرتی حسِ اخلاق حسنِ اخلاق میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
عقیدہ، یقین، مقصدیت اور پہل کرنے کی اہمیت ایسے اعلیٰ اوصاف ہیں جو تعلیم یافتہ افراد کی زندگی کو بامعنی اور تخلیقی بنا دیتے ہیں۔ ملی نظامِ تعلیم کا دوسرا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ ہم اپنے تہذیبی ورثے، علمی روایات، ثقافتی زیور اور اعلیٰ اقدار کو نہ صرف سنبھال کر اْن سے مستفید ہوں بلکہ اْن کا ایک تنقیدی جائزہ لیکر اْن میں بدلتے ہوئے ماحول اور حالات کے مطابق نئے رنگ بھی بھریں تخلیقی تعمیر نو کا یہ عمل بہت ضروری ہے۔ علوم طبعی بھی ہیں اور روحانی بھی۔ شخصیت کی متوازن تعمیر کیلئے دونوں انتہائی اہم ہیں۔ طبعی علوم کی نفی رہبانیت یا دنیا سے فرار کی راہ دکھاتی ہے اور روحانی علوم سے دوری ہمیں وحشیت یا غیر انسانی رجحانات کی طرف دھکیلتی ہے اس لئے انسان کی متوازن نشو و نما کیلئے یہ دونوں بہت ضروری ہیں – ہمارا نظامِ تعلیم ہماری اپنی تہذیب و ثقافت، ہماری اپنی تاریخی روایات اور کائنات کے بارے میں ہمارے نقطہ نظر کے مطابق ہونا چاہئے کسی بھی دوسرے نظام کی نقالی مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ ہم عمر بھر اپنی ساری توانائیاں اپنی معاشی آسودگی کے حصول میں صرف کرتے رہتے ہیں اور جب بہت ساری دولت، لامحدود جائیداد اور بے پناہ وسائل ہمارے ہاتھ میں آ جاتے ہیں تو ہم اپنی زندگی کو کامیاب کہہ کر مطمئن ہو جاتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ معاشی تو صرف ذریعہ حیات مقصدِ حیات نہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اپنے لئے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
مقصدِ حیات میں آخرت کیلئے تیاری، حقوق اللہ اور بہت ہی اہمیت کے حامل حقوق العباد کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔مذکورہ بالا ساری چیزوں کا شعور تعلیم سے اجاگر ہو سکتا ہے لیکن تعلیمی اسناد کے حصول کے بعد بھی اگر کوئی انسان مقصدِ حیات کو سمجھنے سے قاصر رہے اور اپنے روحانی دریچوں کے اندر جھانکنے کی اہلیت سے عاری ہو تو سمجھ لیں کہ وہ ناخواندہ ہے – بدقسمتی سے پچھلے 67 سالوں میں ہم نے تعلیم کو بالکل اہمیت نہیں دی اس لئے تعلیمی لحاظ سے پاکستان کا شمار دنیا کے پست ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ ہمارے تعلیمی اخراجات بجٹ کے دو فیصدی سے بھی کم ہیں، اساتذہ کی تربیت کا موزوں بندوبست نہیں۔ ہمارے نظامِ تعلیم میں غریب اور بے سہارا بچوں کیلئے صرف مذہبی مدارس ہیں جہاں کافی مدارس میں طبعی تعلیم کی گنجائش سرے سے ہے ہی نہیں۔ انگلش میڈیم سکولز میں اسلامی تعلیم کا فقدان ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ کئی سکولوں کی عمارات نہیں، عملہ ناکافی اور ناتجربہ کار ہے۔
سائنس لیبارٹریز نہیں اور اچھی ٹریننگ ایڈز کا فقدان ہے۔یعنی ہم بچوں کو مضمون یاد کروا دیتے ہیں اس مضمون کے اندر پنہاں اسباق اور فلاسفی پر زور نہیں دیتے۔ ہمار ی تعلیم کی اساس موضوعاتی تو ہے فکری نہیں ہےپھر ہمارے نظامِ تعلیم میں ا ستاد کا فنی مہارت کو اجاگر کرنے کی طرف کوئی دھیان نہیں ہوتا۔یعنی ایک سبق پڑھاتے وقت اگر ہم صرف لیکچر کی بجائے مباحثے کو ترجیح دیں تو بچے میں خود اعتمادی، اپنی دلیل کیلئے الفاظ کے چناؤ کا ڈھنگ دوسروں سے اختلاف کرنے کے آداب اور مباحثے کے دوران دوسرے کی بات کاٹ کر اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے بغیر اپنے لئے موقع گفتار حاصل کرنے کی تربیت دینی بھی تعلیم کے مقاصد میں شامل ہے۔ تعلیم شائستگی کا درس دیتی ہے اونچا بولنا یا جیبوں میں ہاتھ ڈال کر استاد یا بزرگ کے سامنے کھڑے ہونا بے ادبی سمجھا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ درس گاہوں میں بچوں کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ایک اچھے شہری کے حقوق کیا ہیں اور ذمہ داریاں کس قسم کی ہیں مثلاً یہ کہ آپ کو تقریر اور نقل و حرکت کی تو آزادی ہے اور فیئر ٹرائل کے بھی آپ حقدار ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کو غور و فکر اور مذہبی آزادی بھی حاصل ہے لیکن یہ یاد رہے کہ آپ ریاست کے قوانین کے بھی تابع ہیں۔ اس لئے آپ دوسروں کے راستے میں رکاوٹ بھی نہیں بن سکتے۔ ریاست، پڑوسیوں اور اہل محلہ کے حقوق کا بھی خیال رکھنا ہے۔ سڑکوں اور سیر گاہوں میں کچرا نہیں پھینکا جا سکتا۔ ملکی مفاد کے خلاف نہ صرف خود کچھ نہ کہنا ہے بلکہ ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث لوگوں کے متعلق اطلاعات فوراً انتظامیہ کو دینی ہیں۔ اسی طرح بین الاقوامی سٹیزن شپ کے بنیادی عوامل سے بھی ہماری آشنائی نہایت ضروری ہے۔ قارئین افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ تعلیم آج بھی ہماری اصل ترجیح نہیں اس کی اہمیت جتنی زیادہ ہے ہم اتنے ہی بے حس ہیں۔ اور ھمارے صاحب اقتدار عدم دلچسپی کے مرتکب ھیں۔
تحریر: ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری