’’میرا بچہ اللہ سے بہت خوف زدہ ہوگیا تھا۔ میں نے بہت کوشش کی لیکن یہاں رہ کر میں اس کے دل سے یہ خوف ختم نہیں کرسکا۔ اس لیے مجبوراً مجھے پاکستان چھوڑنا پڑا۔‘‘ ارشد نے توقف کیا کہ شاید میں اس کی بات پر کوئی تبصرہ کروں لیکن میں نے اپنی حیرت ظاہر نہیں کی اور اس ڈر سے چپ رہا کہ میرے استفسار پر ارشد کہیں اپنی بات نہ بدل دے۔ اور وہ راز جسے جاننے کےلیے میں بے چین ہو رہا تھا کہ میرا دوست پاکستان میں ایک کامیاب زندگی کے باوجود اچانک ملک کیوں چھوڑ گیا، کہیں راز ہی نہ رہ جائے۔ پاکستان چھوڑنے کے سات سال بعد آج ارشد نے مجھ سے رابطہ کیا تھا اور میرے انتہائی اصرار پر وہ اس راز سے پردہ اٹھانے پر آمادہ ہوا تھا کہ سات سال قبل ایسا کیا ہوا تھا جس نے اسے خاموشی سے ملک بدر ہونے پر مجبور کردیا تھا۔
’’میں نے اپنی فیملی میں سب سے ڈسکس کیا اور سب کی رہنمائی چاہی کہ میں اپنے بچے کے دل سے اللہ کا خوف کیسے نکالوں؟ لیکن میرے اپنے، میرے بہن بھائی میری بات سن کر مجھ پر ہنستے تھے۔ اور تو اور میرے والدین اور میری بیوی بھی اس مسئلے پر میرا ساتھ دینے کےلیے آمادہ نہیں تھے۔،‘‘ ارشد کی آواز سے اداسی جھلک رہی تھی اور اس کی آنکھوں کے گوشے بھیگ رہے تھے۔
’’میرے بیٹے حسیب کی عادت تھی کہ وہ سوال بہت پوچھتا تھا اور جب تک وہ اپنے سوالوں کے جواب سے مطمئن نہیں ہو جاتا، اس وقت تک وہ مسلسل سوال پوچھتا رہتا۔ حسیب پانچ سال کا ہوگیا تھا۔ اس کی سالگرہ میں سب لوگ آئے تھے سوائے اس کے دادا ابو کے۔ چونکہ وہ سالگرہ کو غیر مسلموں کی رسم سمجھتے تھے اور اسے منانا گناہ سمجھتے تھے، اس لیے وہ ایسی تقریبات میں نہیں جاتے تھے۔ ایک دن حسیب نے اپنے دادا سے سوال کیا: ’’دادا ابو! آپ میری سالگرہ میں کیوں نہیں آئے تھے؟‘‘ ابو نے جواب دیا ’’کیونکہ یہ گناہ کا کام ہے اور گناہ کرنے پر اللہ سزا دیتے ہیں، اس لیے میں تمہاری سالگرہ میں نہیں آیا۔‘‘ حسیب ایک لمحے کےلیے خاموش رہا پھر بولا ’’دادا ابو! اللہ کیا سزا دیتے ہیں؟‘‘ ’’بیٹا! اللہ گناہ کرنے والوں کو آگ میں ڈال دیتے ہیں،‘‘ ابو نے وضاحت کی۔ ’’دادا ابو! اس کا مطلب ہے کہ میری سالگرہ میں بابا، پھو پھو اور چاچو، جتنے لوگ بھی آئے تھے، اللہ سب کو آگ میں ڈال دیں گے؟‘‘ ابو خاموش رہے۔ ’’دادا ابو! اگر اللہ سب کو آگ میں ڈال دیں گے تو پھر آپ دادی امی کو سالگرہ میں کیوں بھیجتے ہیں؟‘‘ حسیب کی تشفی نہیں ہوئی تھی۔ ’’بیٹا انہیں میں نہیں بھیجتا۔ وہ اپنی مرضی سے جاتی ہیں… اور تم اپنا کام کرو، زیادہ سوال نہیں پوچھتے،‘‘ ابو نے یہ کہہ کے بات ختم کردی۔‘‘
ارشد ایک لمحے کےلیے چپ ہوا لیکن میری خاموشی کو اس بات کا اقرار سمجھتے ہوئے کہ میں پوری توجہ سے اس کی بات سن رہا ہوں، اس نے سلسلہ کلام دوبارہ شروع کیا۔
’’کچھ دن گزر گئے۔ ابو یہ سمجھتے رہے کہ حسیب بھی عام بچوں کی طرح ایک بچہ ہے۔ وہ یہ بات بھول چکا ہوگا۔ مگر ایسا نہیں تھا۔ ایک دن حسیب نے کھیلتے ہوئے شرارتاً اپنی چھوٹی بہن کو دھکا دیا۔ وہ گر گئی اور رونے لگی۔ میری بیوی کچن میں کام کر رہی تھی۔ وہ بچی کے رونے کی آواز سن کر غصے میں باہر آئی تو اپنی ماں کی ڈانٹ سے بچنے کےلیے حسیب نے شرمندگی سے سر جھکا لیا اور بولا ’’ماما! سوری غلطی ہو گئی۔‘‘ ’’بیٹا آئندہ ایسا نہیں کرنا۔ اگر چھوٹی بہنا کو آپ کی وجہ سے چوٹ لگے گی تو اللہ آپ کو گنا ہ دیں گے،‘‘ میری بیوی نے اپنے تئیں حسیب کو سمجھایا۔ ’’ماما! گناہ کیا ہوتا ہے؟‘‘ ’’بیٹا! جب آپ کوئی ایسا کام کریں جس سے اللہ ناراض ہوجائیں، اسے گناہ کہتے ہیں۔ اور گناہ کرنے والوں کو اللہ آگ میں ڈال دیتے ہیں،‘‘ حسیب کی ماں نے وضاحت کی۔ ’’ماما! اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب آپ مجھے مارتی ہیں اور مجھے چوٹ لگتی ہے تو اس کا گناہ آپکو ملتا ہے۔ تو اس گناہ کی وجہ سے اللہ آپ کو بھی آگ میں ڈالیں گے؟‘‘
’’حسیب کی باتوں سے اسکی ماں چڑ گئی، ’’حسیب تم بہت فضول سوال کرتے ہو۔ خبردار! تم نے آئندہ اپنی بہن کو ہاتھ لگایا تو میں تمہارا حشر کردوں گی۔‘‘ اپنی ماں کا غصہ دیکھ کر حسیب سہم کر خاموش ہو گیا اور تھو ڑی دیر بعد دوبارہ کھیل میں مگن ہو گیا۔ لیکن اس دن وہ ذہنی طور پر ڈسٹرب اور پریشان رہا۔ جب میں شام کو آفس سے گھر آیا تو حسیب کی ماں نے مجھے بتایا کہ آج حسیب نے اپنی چھوٹی بہن کو مارا تھا۔ ’’نہیں بیٹا ایسا نہیں کرتے،‘‘ میں نے حسیب کو خود سے لپٹا کر پیار کیا مگر اس کے چہرے پر وہ خوشی نہیں تھی جو میرے آفس سے گھر واپس آنے پر اسے ہوتی تھی۔ مجھے کچھ عجیب محسوس ہوا لیکن میں نے یہ سوچ کر نظرانداز کردیا کہ شاید ماں کی ڈانٹ کا نتیجہ ہے، خود ہی اس کا موڈ ٹھیک ہوجائے گا۔ حسیب کی ایک عادت تھی کہ پانچ سال کا ہوجانے کے باوجود وہ میرے بازو پر سر رکھ کر لیٹتا تھا اور جب تک سارے دن کی رُوداد مجھے سنا نہیں لیتا تھا، اس وقت تک سوتا نہیں تھا۔ لیکن اس رات اس نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔ وہ خاموشی سے میرے بازو پر سر رکھ کر لیٹا رہا۔ میں نے اسے کریدنے کی کو شش بھی کی کہ آج میرے بیٹے نے اسکول میں کون کون سی ایکٹیویٹیز کیں؟ کون سی گیمز کھیلیں؟ مگراس نے کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔‘‘
’’تھوڑی دیر بعد اس نے مجھ سے پوچھا ’’بابا! اللہ کتنے بڑے ہیں؟‘‘ ’’بیٹا! اللہ بہت بڑے ہیں، ہماری سوچ سے بھی بڑے۔‘‘ ’’بابا! اللہ مونسٹر سے بھی بڑے ہیں؟‘‘ ’’حسیب! نہیں بیٹا! اللہ کو مونسٹر نہیں کہتے ورنہ اللہ ناراض ہوجاتے ہیں اور…‘‘ میری بات پوری ہوئے بغیر ہی وہ بول پڑا۔ ’’بابا! مجھے اللہ اچھے نہیں لگتے۔ وہ ہر بات پر گناہ دیتے ہیں۔ جو سالگرہ مناتے ہیں ان کو بھی گناہ دیتے ہیں۔ جو بچوں کو مارتے ہیں ان کو بھی گناہ دیتے ہیں اور آخر میں سب کو آگ میں ڈال دیتے ہیں،‘‘ حسیب غصے اور خوف کی ملی جلی کیفیت میں تھا مگر میں اس کی کیفیت سے بے خبر ہنسنے لگ گیا۔ ’’نہیں بیٹا ایسا نہیں کہتے۔ آؤ تمہیں دعائیں پڑھا دوں، پھر ہم سوتے ہیں۔‘‘ لیکن اس رات اس نے دعائیں نہیں پڑھیں۔ ’’بابا! آپ خود پڑھ لیجیے،‘‘ یہ کہہ کر حسیب نے اپنے سر کے نیچے سے میرا بازو نکالا اور کروٹ بدل کر بڑبڑاتا ہوا سوگیا۔ ہم نے اسے ایک مثبت تبدیلی سمجھا کہ اب وہ بڑا ہورہا ہے شاید، اس لیے انڈیپینڈنٹ ہونے کی کوشش کررہا ہے۔ لیکن ایسا نہیں تھا۔ وہ اکیلا ہو رہا تھا، انڈیپینڈنٹ نہیں۔ ہم سمجھ ہی نہیں پائے۔‘‘
ارشد کی آواز تاسف سے بوجھل ہوگئی۔ میں حیرت سے گنگ بیٹھا ارشد کی بات سن رہا تھا۔ دسمبر کی خنکی میں ماحول کی اداسی کی آمیزش ہورہی تھی اور مجھے یوں لگ رہا تھا کہ ایک باپ کا دکھ دھیرے دھیرے میرے وجود میں اتر کر مجھے چھلنی کررہا ہے۔
’’کچھ عرصے بعد ایک واقعہ اور ہو گیا۔ حسیب کی پھوپھو اپنے بچوں کے ہمراہ چھٹیاں گزارنے ہماری طرف آئی تھیں۔ حسیب کا ان کے بیٹے سے جھگڑا ہوگیا۔ میری بہن نے جب دونوں بچوں کو لڑتے دیکھا تو ان کو چھڑوایا اور سمجھانے کی کوشش کی کہ آ پس میں لڑتے نہیں ورنہ اللہ ناراض ہو جاتے ہیں اور گناہ دیتے ہیں۔ ’’پھوپھو! گناہ ملتا ہے تو اللہ آگ میں ڈال دیتے ہیں،‘‘ حسیب نے اپنی پھوپھو کی بات مکمل کی۔ ’’ارے واہ! میرا حسیب تو بہت سمجھدار ہے اس لیے آئندہ لڑنا نہیں۔‘‘ اس رات وہ سوتے ہوئے نیند میں بڑ بڑا رہا تھا۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ میں نے اس کے ہونٹوں کے ساتھ کان لگائے اور سمجھنے کی کوشش کی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ ’’اللہ اچھے نہیں ہیں۔ سب کو آگ میں ڈال دیتے ہیں۔ میں بڑا ہو کر اللہ سے فائٹ کروں گا،‘‘ حسیب کی بے ترتیب بڑبڑاہٹ میں بھی یہ الفاظ نمایاں تھے۔ میں نے اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔ اسے تھپتھپایا تو وہ تھوڑا پرسکون ہوا۔ لیکن پھر یہ ہر رات ہونے لگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی نیند مزید خراب ہونے لگی۔ اس کی بھوک کم ہوتی گئی اور وہ چڑچڑا ہونے لگا۔ بڑوں کے کہنے پر اسے بد نظری کا دم بھی کروایا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔‘‘
’’ایک رات وہ سوتے میں چیختا ہوا اٹھ بیٹھا۔ ’’بابا! مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ مجھے اللہ سے بہت ڈر لگ رہا ہے!‘‘ وہ رات بہت مشکل تھی۔ ساری رات حسیب اللہ سے ڈرتا رہا اور میرے پاس کوئی ایسی دوا نہیں تھی جو میں اسے پرسکون ہونے کےلیے دیتا۔ مجھے صرف یہ بات سمجھ میں آئی کہ میرا بیٹا بہت ڈرا ہوا ہے اور میں اس کا خوف دور کرنے کےلیے کچھ نہیں کرسکتا۔ وہ رات ہم نے جاگتے ہوئے گزاری۔ حسیب کو تھوڑی دیر کےلیے اونگھ آتی اور پھر ڈر کر اٹھ بیٹھتا۔ صبح ہوتے ہوتے اسے تیز بخار ہوگیا۔ اگلے دن میں اسے بچوں کے ڈاکٹر کے پاس لے گیا اور میں سمجھتا ہوں کہ میری خوش قسمتی تھی کہ بارش کی وجہ سے ڈاکٹر کے پاس مریضوں کا رش نہیں تھا۔ ڈاکٹر نے حسیب کو چیک کیا۔ اس کی علامات نوٹ کیں، کچھ ٹیسٹ تجویز کیے اور بولا کہ بظاہر اس بچے کو کچھ نہیں۔ ٹیسٹوں کی رپورٹس آنے پر پتا چلے گا کہ کیا مسئلہ ہے۔ میں نے ڈاکٹر کو بتایا کہ اسے اللہ سے بہت ڈر لگتا ہے۔ اس ڈر کی وجہ سے ساری رات یہ سو نہیں سکا۔ سوتے سوتے ڈر کر اٹھ بیٹھتا ہے۔ ڈاکٹر خاموشی سے میری بات سنتا رہا پھر اس نے پوچھا کہ یہ معاملہ کب سے چل رہا ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ تقریباً چار پانچ ماہ سے۔‘‘
’’ڈاکٹر نے ایک گہری سانس لی، کرسی کی پشت سے ٹیک لگائی اور بڑبڑایا ’’ویری اسٹرینج۔‘‘ ڈاکٹر تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا اور بولا ’’ارشد صاحب! آپ کا بچہ بالکل ٹھیک ہے۔ اصل میں آپ کا ماحول بیمار ہے۔ یہ بچہ دوسروں کی نسبت زیادہ حساس ہے اس لیے بیمار ماحول نے اس کی نفسیات پر برا اثر ڈالا ہے۔ آپ مجھے ایک بات بتائیے، اگر آپ کو ایک لاک اپ میں ڈال دیا جائے جہاں آپ قید تنہائی میں ہوں، آپ کو ایک بڑی اسکرین مہیا کر دی جائے اور اس پر آپ کو آپ کی فیملی دکھائی جاتی رہے اور ساتھ ہی آپ کو یہ باور کروایا جائے کہ جس طاقتور دشمن نے آپ کو لاک میں رکھا ہوا ہے وہ مسلسل آپ کی فیملی پر نظر رکھے ہوئے ہے اور کسی بھی وقت کچھ بھی کرسکتا ہے تو آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟‘‘ ’’ڈاکٹر صاحب! میں اپنی بساط کے مطابق اس دشمن سے لڑنے کی کوشش کروں گا اور اپنی فیملی کو اس کے شر سے بچانے کا انتظام کروں گا،‘‘ میں نے ڈاکٹر کو جواب دیا۔‘‘
’’لیکن اگر دشمن آپ کے تصور سے بھی زیادہ طاقتور ہو اور آپ کے سامنے بھی نہ آئے تو آپ سوائے جلنے، کڑھنے اور اپنے دشمن کو برا بھلا کہنے کے کچھ نہیں کر پائیں گے۔ دھیرے دھیرے آپ کی نیند اڑ جائے گی اور بھوک ختم ہوجائے گی۔ مجھے افسوس ہے کہ آپ نے اپنے بچے کے ساتھ یہی کیا ہے۔ ارشد صاحب! بچے نرمی، محبت اور شفقت کے طلب گار ہوتے ہیں۔ آپ لوگوں نے غیر ضروری طور پر اپنے بچے کو اللہ سے ڈرایا اور اللہ کا نام دھمکی کے طور پر استعمال کیا۔ شاید آپ لوگوں کی نیت اچھی ہو لیکن اللہ کا ڈر اور خوف اس کے اندر جڑ پکڑ گیا۔ اس وقت آپ کا بیٹا ذہنی طور پر ایک لاک اپ میں بند ہے۔ آپ کے رویّوں نے اسے قید تنہائی میں دھکیل دیا ہے۔ وہ اپنے محسوسات آپ کے ساتھ شیئر نہیں کرتا کیونکہ آپ اسے ایسا کرنے نہیں دیتے۔ اس نفسیاتی لاک اپ میں آپ کے بیٹے کے خیال میں اس کا مقابلہ جس مونسٹر یا عفریت سے ہے، اس کا نام اللہ ہے اور وہ اسے ہرا نہیں سکتا؛ نہ ہی اس سے سمجھوتا کرسکتا ہے کیونکہ آپ لوگوں کے رویوں نے اس کے ذہن میں یہ نقش کیا ہے کہ اللہ صرف سزا دیتا ہے اور آگ میں ڈالتا ہے۔ میرا آپ کو مشورہ ہے کہ اپنا ماحول بدلیے اپنے رویّے بدلیے۔
’’اپنے بچے کو اللہ سے ڈرانا چھوڑ دیجیے، اسے اللہ کے کرم سے روشناس کرائیے۔ اسے احساس دلائیے کہ اللہ بنیادی طور پر رحیم اور کریم ہے۔ اس دنیا کی ساری خوبصورتی اللہ کے کرم اور رحم کی وجہ سے ہے۔ اسے نبی اکرم ﷺ کی ذات کے بارے میں بتائیے۔ اسے بتائیے کہ اللہ کے کرم کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے نبیﷺ کو تخلیق کیا جو سرتاپا سب کےلیے رحمت تھے۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر آپ نے اپنا ماحول نہ بدلا تو یہ بچہ پیچیدہ قسم کی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوجائے گا اور ضدی، چڑچڑا اور ڈھیٹ ہوتا جائے گا؛ اور اللہ کی ضد میں ہر غلط کام کرے گا۔ لہذا میری آپ سے گزارش ہے کہ اپنے بچے کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونے دیجیے کیونکہ مایوسی پہلے انسان کو ڈپریشن اور پھر کفر کی جانب لے جاتی ہے۔‘‘ میں ڈاکٹر کی تجاویز پر عمل کرتے ہوئے گھر کا ماحول بدلنے میں لگ گیا۔ لیکن مجھے یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ میں نے اس سلسلے میں جس فیملی ممبر بھی سے بات کی اس نے زیر لب مسکراتے ہوئے مجھ سے کہا کہ کبھی اللہ کے ڈر سے بھی کسی کی یہ حالت ہوئی ہے؟ تم ڈاکٹر بدل لو۔ میں نے ڈاکٹر بھی بدل کر دیکھ لیے لیکن حسیب کی حالت روز بروز بگڑتی گئی۔‘‘
’’میں حسیب کے اسکول بھی گیا، اس کے اساتذہ سے ملا اور انہیں بتایا کہ اس کے سامنے اللہ کے غضب کا ذکر نہ کریں لیکن روز کوئی نہ کوئی ایسی بات ہو جاتی جس سے اس کی طبیعت خراب ہو جاتی۔ جب میں نے دیکھا کہ میری تمام کوششوں کے باوجود ماحول میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تو میں نے خاموشی سے پاکستان چھوڑ دیا۔ آج میں اپنے اس فیصلے پر بہت خوش ہوں کیونکہ کچھ ہی عرصے میں حسیب کا ڈر اور خوف رخصت ہو گیا اور اس کا اعتماد لوٹ آیا۔ اب وہ ایک نارمل زندگی گزار رہا ہے۔‘‘
’’میں جب بھی حسیب کو دیکھتا ہوں، میرا دل اللہ کےلیے شکر کے جذبات سے لبریز ہوجاتا ہے کہ حسیب کی وجہ سے میں خدا کی رحمت اور کرم کی طرف متوجہ ہوا۔ ورنہ اس سے پہلے میں خدا کے کرم سے اس طرح آشنا نہیں ہوا تھا جیسے اب ہوں۔ اس سے پہلے میں بھی خدا کو بہت سخت گیر اور غصے والا سمجھتا تھا۔ کبھی کبھی یہ سوچ کر غمزدہ ہوجاتا ہوں کہ اس ملک میں کروڑوں حسیب ہیں۔ کاش ہم انہیں اللہ کی رحمت سے روشناس کراسکیں…‘‘
بات مکمل کرتے کرتے ارشد کی آواز گلوگیر ہوگئی تھی۔ اس کا لہجہ آنسوؤں میں بھیگا ہوا تھا اور ان آنسوؤں میں دکھ اور شکر گزاری کے جذبات گندھے ہوئے تھے۔ جبکہ میں شرمندگی سے سر جھکائے بیٹھا تھا کیونکہ ارشد کے آنے سے پہلے میں اپنے چار سالہ بیٹے کو ڈانٹ کر آرہا تھا کہ اگر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا تو اللہ اس سے ناراض ہوکر اسے آگ میں ڈال دیں گے۔