تحریر : کامران گھمن
آج سے 87برس پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ لاڑکانہ میں پیدا ہونے والا ایک بچہ پیارے پاکستان کی سیاست پر راج کرے گا ۔ ایک دن طوطا چشم بھی اُس کا طوطی سننے پر مجبور ہوں گے ۔ اور تو اور اُن کے جانی دشمنوں کی باقیات بھی اُن کی سیاست کو اجاگر کرے گی ۔جسے ہم تاریخ کے نام بھی کر سکتے ہیں اور اسے اُس کا انتقام بھی کہہ سکتے ہیں۔بھٹو صاحب نے کہا تھا کہ ’’میری موت پر ہمالیہ بھی آنسو بہائے گا ‘‘۔ان کی اس بات کا مذاق اُڑایا گیا اور آج ۔۔۔آنسو ختم ہوچکے ہیں لیکن کشت و خون جاری ہے۔ پیاراپاکستان ڈکٹیٹروں کے لاڈ پیار کی آڑ میں نفرتوں میں جکڑ دیا گیا۔ اُن کے ارمان پھر بھی پورے نہیں ہو پا رہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہر قسم کے حالات کو اپنے جذبات کے تابع کر لیتے ہیں ۔اُن کے ذاتی ایجنڈے میں بھی ملکی و غیر ملکی سیاست کی رنگ رلیاں ہوتی ہیں۔
جو لوگ اپنے گھر میں بھی اجنبی بن رہتے ہیں ،اُنہوں نے پوری دنیا میں ہماری شناخت کا ٹھیکہ لے رکھا ہوتا ہے ۔ کمیشن کے ’’کاروبار ‘‘ میں ان سب کا اتفاق ہے ۔بھٹو صاحب پاکستان کے وزیر خارجہ بھی رہے ۔ اُن کی کرشمہ سازی سے پیارے پاکستان کا سورج پورے آب و تاب سے چمک رہا تھا ۔بدقسمتی سے آج ہماری سفار ت کاری بھی عیاری اور مکاری کی بھینٹ چڑھا دی گئی ہے ۔ کسی بڑے سے جان چھڑانا ہو تووہ بیرون ملک ہماری پہچان بنا دیا جاتا ہے ۔آج بھی بہت سے ’’بیچارے ‘‘لائن میں کھڑے ہیں ۔حفیظ ؔ ہوشیار پوری کا ایک شعر بھی ’’لائن حاضر ‘‘ کرتے چلیں
تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا
اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا
بے مروّ ت لوگوں سے پیار کرنے والے ایک دن خود سے بھی نفرت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔بھٹو صاحب نے پیارے پاکستان کے لئے کیا کچھ نہیں کیا تھا۔ایک ٹوٹے پھوٹے ملک کو نگینہ اور خزینہ بنانا اُن کا کبھی نہ بھولنے والا کا رنامہ ہے ۔اُن کی عظمت کو گاڑھنے کے لئے جھوٹ کے مینار بنا ئے گئے۔اُن دنوں گمراہ گردی کی انتہا پسندی کا آغاز ہوا ۔مجھے کہنے دیجئے ایک نہ ایک دن دہشت گردی ختم ہو سکتی ہے لیکن گمراہ گردی ۔۔۔آج بھی 1980ء کے داغ ہمارے ’’چراغ ‘‘ بنے ہوئے ہیں ۔جب تک یہ جلتے رہیں گے ،عوام کا خون بھی جلتا رہے گا ۔لوگوں کے ذہن بدلنے کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا ۔ اب بھی فیصلے نئے ہیں ۔سیاسی قیادت پرانی ہے ۔بھٹو صاحب نے سب سے پہلے پسے ہوئے طبقات کے ساتھ یک جہتی کا مظاہرہ کیا ۔وہ اہلِ غرباء کے سچے اور کھرے لیڈر تھے۔ اب بھی وہ ہر اُس گھر میں بستے ہیں ،جس کی چھت ٹپکتی ہے۔آج کی معیشت نے بھی ہماری بے بسی اور بے کسی میں اضافہ کیا ہے ۔جو دنیائے عالم میں ہمارا مذاق اُڑا رہی ہے۔شاد ؔ عارفی نے کیا خوب کہا ہے
مگر یہاں تو جل رہا ہے آدمی سے آدمی
سنا یہ تھا، چراغ سے چراغ جلتے آئے ہیں
جنگل کی کیا بات کریں ۔۔۔شہر کی آگ کہیں زیادہ شر انگیز ہوتی ہے ۔بھٹو صاحب نے ایک ہاتھی کی نشاندہی کی تھی ۔آج۔۔۔ وہ ہاتھی ،سب کا ساتھی ہے ۔معزز قارئین !بھٹو صاحب کے والد سر شاہنواز بھٹو پہلی مرتبہ قائدِ اعظم سے 1928ء میں ملے ۔اُسی سال پانچ جنوری کو بھٹو صاحب پیدا ہوئے ۔ اُس دورے میں بابائے قوم کا قیام بھٹو خاندان کے مرکزی گھر ’’المر تضیٰ‘‘ میں رہا ۔تحریک پاکستان مسلمانانِ ہند کا یک نکاتی ایجنڈا بن چکی تھی ۔ بھٹو صاحب بمبئی میں اپنے تعلیم جاری رکھے ہوئے تھے ۔وہ اپنے خاندان کے خوبصورت گھر ’’آشیانہ ‘‘ میں رہتے تھے ۔وہ اس وقت چھ سال کے تھے، جب اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی سے بمبئی آئے ۔ننھے بھٹو کو وہاں کیتھیڈرل ہائی سکول میں داخل کروایا گیا۔
اُن دنوں قائدِ اعظم اور سر شاہنواز بھٹو اپنے مشترکہ دوست ڈاکٹر پٹیل کے ہاں چائےپر ملا کرتے تھے ۔بھٹو صاحب کا سکول کلینک کے قریب ہی تھا ۔سکول کے بعد وہ وہاں چلے جاتے ۔وہ چھوٹی سی عمر میں ہی برصغیر کی سیاست کی بارے میں آ گاہ رہنے لگے۔اُن پر آشوب دنوں مسلمانوں کی دنیا ۔۔۔اسرا لحق مجاز ؔ کا ایک شعر بھی یاد آیا
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے
قائدِ اعظم کی قیادت میں بر صغیر کے مسلما نوں کے دن سنورنے لگے۔پیارا پاکستان بن گیا ۔بابائے قوم کی آنکھیں بندہونے کے بعد منظر نامہ پھر سے ڈراؤنا بننا شروع ہو گیا ۔اگر شروع کے دنوں میں آئین بن جاتا تو آج بھی ہمارا جغرافیہ سر بلند ہو نا تھا ۔بہر کیف آج بھٹو صاحب کا آئین ہماری ریاست کا سب سے بڑا رکھوالا ہے ۔لیکن اُس کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اور ہنوز جاری ہے ۔۔۔یاد آیا کہ اپریل 1945ء میں اُٹھارہ سالہ بھٹو نے قائدِ اعظم کو خط لکھا۔ ’’آپ نے ہمیں ایک پرچم تلے پلیٹ فارم مہیا کیا ہے اور ہر مسلمان کا یہ نعرہ ہونا چاہیے ’’بڑھے چلو پاکستان کی طرف‘‘۔ ہماری منزل ایک ہے ۔ہمارا مقصد پاکستان ہے۔ ہمیں کوئی نہیں روک سکتا ۔وہ وقت آئے گا جب میں اپنی جان پاکستان پر قربان کردوں گا ‘‘۔اُنہوں نے 34برس بعد (4اپریل 1979ء)کو دار کا ہار بنا کر اپنا وعدہ پورا کر دیا۔آخر میں شکیب جلالی
اسی لئے تو ہو ا رو پڑی درختوں میں
ابھی میں کھل نہ سکا تھا کہ رُت بدلنے لگی
تحریر : کامران گھمن