لاہور (ویب ڈیسک) پاکستان میں سابق برطانوی سفیر سر مورس جیمز نے پاکستان کرانیکل کے عنوان سے جو کتاب لکھی تھی ۔ ان کی یہ کتاب واقعات کا ایسا مجموعہ ہے۔اس میں وہ تواتر سے ہوم ڈیپارٹمنٹ کو رپورٹیں بھی بھیجتے رہے تھے ۔ جس میں انہوں نے پاکستان کے سیاسی اتار چڑھاؤ کو قریب سے دیکھا تھا۔ نامور کالم نگار وکیل انجم اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایوب دور کا انہوں نے قریب سے مشاہدہ کیا ۔ بھٹو ز کی سیاست کے تو وہ بڑے ماہر تھے۔وہ اپنی کتاب میں بھٹو کی سیاست کے بارے میں لکھتے ہیں (اس وقت بھٹو زندہ تھے ’)’ بھٹو نہایت ذہین انسان ہے اس میں کشش،قائدانہ صلاحیتیں،بے پناہ انرجی،حس مزاح، زرخیز تخیل، فن گفتگو اور تیزی سے بات سمجھنے اور دوسروں کے اندر جھانکنے کا ملکہ موجود ہے۔ اس طرح کی تمام خوبیاں ایک ہی شخص میں خال خال جمع ہوتی ہیں اس لئے ایسے شخص کا سیاسی عروج اس کا حق ہے۔ ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ بھٹو کے دل میں دوسرے کے لئے احترام اور اہمیت کا فقد ان ہے۔ وہ صرف اپنی ذات تک محدود ہے، میں نے اس میں انتقام اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کی بے پناہ صلاحیتیں اور رجحان دیکھا ہے۔وہ اپنے آپ کو ایسا انسان سمجھتا ہے جو غلطی کر ہی نہیں سکتا اسے اوسط قسم کے خوشامدی سیاستدانوں نے گھیر رکھا ہے۔ 1965ء کی ایک ڈائری میں سر مورس جیمز نے لکھا کہ بھٹو متضاد خوبیوں اور صلاحیتوں کا بہترین نمونہ ہے وہ ایک دن اپنے آپ کو تباہ کرلے گا۔ بھٹو پیدا ہی پھانسی پانے کے لئے ہوا ہے‘‘۔ اس کے الفاظ یہ تھےBhutto was born to be hanged۔ پاکستان کی آج کی سیاست کو دیکھیں تو ایک دوسرے کو تباہ کرنے کا عنصر تو وزیر اعظم سے اپوزیشن تک سب میں نظر آتا ہے۔یہ ہفتہ کافی گرما گرمی میں گزرے گا۔ قائد حزب اختلاف شہباز شریف پاکستان آچکے ہیں حکومت کے بیان بازوں کے ساتھ ہی ا ن کا بولنے کا کوٹہ ختم ہوچکا ہے۔ کل وزیر اعظم نے جو ویڈیو بیان جاری کیا تھا اسمیں بھی کافی دھمکیاں اور ڈرانے والی باتیں ہیں اییمنٹی سکیم کے بارے میں حکومت کے تخمینے حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ ایسی باتیں تو پہلے بھی کہی جارہی تھیں ۔ اقتدار میں آنے سے پہلے 200 ارب ڈالر آنے کی نوید تھی۔ اصل سوال تو یہ ہے کہ کپتان کی حکومت کتنے دن کی مہمان ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے تو کہہ دیا ہے حکومت کو تو ہم نے گرانا ہی گرانا ہے۔شہباز شریف بھی کہہ چکے کہ وہ مشترکہ اپوز یشن کے فیصلے کو مانیںگے ۔مریم کا بیانیہ غالب ہوتا نظر آرہا ہے۔مشکلات بڑھ رہی ہیں کے پی کے میں تو تحریک شروع ہو چکی ہے۔ آصف زرداری اور فریال تالپور کی ضمانت مسترد ہو چکی ہے۔آصف زرداری پہلے ہی کورٹ سے جاچکی تھیں۔اب سارا کھیل بلاول کے ہاتھ میں آچکا ہے۔بجٹ سے پہلے یہ بہت بڑی پیش رفت ہے۔موسم کی شدید گرما گرمی میں یہ درجہ حرارت اوپر جائے گا۔مگر حکومت کی مشکلات کم نہیں اور بڑھ گئی ہیں۔ پاکستان کی یہ عجب حکومت ہے کہ اس کو گرانے کے لیے کسی اور کی ضرورت نہیں، خود گرنے کے لیے تیار ہے ایک سے بڑھ کر ایک ایشو تو یہ خود بنا رہی ہے۔حکومت تو اپنی حکمرانی سے بولتی ہے۔اس کو کسی ترجمانوں کے ذریعے نہیں بولنا پڑتا۔گزرے ایک ہفتے میں ترجمانوں نے جس انداز سے گرمایااپوزیشن بھی جواب میں خوب گرجی اوربرسی ہے۔خاص طور پر الیکشن میں ہارے اور عوام سے مسترد لوگ ترجمان تبدیلی سرکار کے حق میں جو بھی بولتے ہیں اس کا کوئی عوام میں تاثر نہیں ابھرتا۔۔ کپتان کے پانچ گوئبلرز کو معلوم ہونا چاہیے کہ اصل گوئبلز بھی اور ان کا جھوٹ بھی ہٹلر کو عبرت ناک انجام سے نہ بچا سکا تھا۔خود گوئبلز کو اپنے بچوں سمیت خود کشی کرنا پڑی تھی۔جھوٹ تو بولا جارہا تھا کہ ہٹلر نے یہ کر دیا اور وہ کردیا تھا۔مگر تھا یہ سارا جھوٹ۔ہٹلر کے’’ بنکر ‘‘ میں مشکل میں گھرے ہوئے اس کے سوا دو راستے تھے،ایک یہ کہ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو برباد کر لے ۔دوسرا پہلو یہ تھا کہ وہ خود کو ان لوگوں کے حوالے کر دیں جو انہیں عبرت کا نشان بنا دی۔ہٹلر نے خود ہی اپنے اور تمام لوگوں کے لیے موت کا آپشن قبول کیا۔اس طرح جھوٹ پر قائم گوئبلر کانظریہ رد ہو گیا۔حکومت کی مدت کا تقریباً 20فیصد اقتدار کی مدت پوری ہو چکی ہے،اس نے گزرے ہفتے میں سرکاری خزانے کو میڈیا پر اشتہارات کے ذریعے خوب لٹایا ہے۔ تبدیلی سرکار حکومت میں آنے کے بعد منصوبوں پر منصوبے دیکھا رہی ہے،مگر یہ ساری ہوائی باتیں ہیں۔خزانے کو لوٹاجارہا ہے اسی طرح میرٹ کی دھجیاں اڑتی نظر آرہی ہیں ان صحافیوں کو جی کھول کر نوازا جارہا ہے ان کے عزیزوں کواہم اداروں میں بڑی بڑی پوسٹیں دی جارہی ہیں۔وی آئی پی پروٹوکول پہلے سے بڑھ کر ہے۔ بنی گالہ کے قلعے کو سیکورٹی اہلکاروں ایسا حصار فراہم کردیا ہے۔ ۔ شرمناک بات یہ ہے حکومت تو آئی ایم ایف کی ہے تبدیلی سرکار کو چورن یہ ڈاکو وہ ڈاکو،ڈاکو تو وہ ہیں جو غریبوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ ساغر صدیقی نے اسی عہد کے بارے میں کہا تھا جس عہد میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی ۔۔ اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے ۔۔ اس شعر کے بارے میں ایک قصہ مشہور ہے جب ایوب کا اقتدار جوبن پر تھا وہ بھارت کے دورے پر تھے انہوں نے دل کے تاروں کو چھیڑنے والا ایک نغمہ سناایوب خان کو یہ نغمہ اتنا پسند آیا ، انہوں نے اس شاعر کو ملنے کی خواہش کر دی ۔۔ ایوب اپنی خواہش کے جواب میں یہ سن کر حیران رہ گئے تھے یہ شاعر تو پاکستانی ہیں ۔۔ ا یوب خان پاکستان آئے اوراس شاعر کی تلاش کا کام شرو ع ہوگیا۔ماتحتوں کو لالے پڑ گئے کہ اس کو کہاں تلاش کیا جائے۔ یہ شاعر تو داتا دربار کے باہر نشے میں دھت زمانے کی ستم ظریفی کا شکار ہو گئے ہیں ۔پولیس کی لاکھ منتوں سماجتوں کے بعد بھی اس نے پولیس کی ایک نہ مانی اور ایوب خان سے ملنے سے انکار کر دیا۔اصرار بڑھا تو انہوں نے سگریٹ کی خالی ڈبیا اٹھائی اس پر لکھ دیا ۔۔ جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی ۔۔ یہ شعر تھے تو جناب ساغر صدیقی کا ایوب خان کے عہد میں جبر ایک سے بڑھ کر ایک کہانی تھا۔،ایک یونٹ کا زمانہ تھا ملک پر ایک جابر گورنر نواب امیر محمد کا زمانہ تھا۔جموریت کس چڑیا کا نام تھا۔شورش کشمیری جیسے دبنگ آدمی بھی گورنر امیر محمد کے حلقہ احباب میں شامل ہوگئے تھے۔ایوب خان کے مخالفین کو چن چن کر جیلوں میں بند کر دیا ۔نواب امیر محمد نے مخالف سیاست دانوں کا مکھو ٹھپنے کے لیے پولیس کے علاوہ بدمعاش بھی پال رکھتے تھے ۔ اب حالات کافی مشکل ہیں۔مولانا فضل الرحمان گنتی کے کھیل میں بھی بڑے اہم ثابت ہوں گے۔