سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو ملک کی جمہوری تاریخ میں ایک سیاہ باب سمجھا جاتا ہے۔تاریخ نے اعتراف کیا ہے کہ قائد جمہوریت کو بے جرم ہی تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ تاہم یہاں ان کی زندگی کے آخری چند گھنٹوں کے حوالے سے کچھ حیران کن معلومات دی جا رہی ہیں۔ ملکی تاریخ کے معروف ترین صحافی ادیب جاودانی نے لکھا ہےکہ جب اعلیٰ پولیس حکام کی جانب سے جیل سپرنٹنڈنٹ یار محمد کو حکم جاری کر دیا جائے گا کہ ان کو دو بجے پھا نسی دے دی جائے تو یار محمد نے اپنے ماتحتو ں کاظم بلوچ اور مجید قریشی کو حکم دیا کہ کال کوٹھڑی میں بند بھٹو کو پیغام پہنچا دو کہ دو بجے ان کو پھانسی دے دی جائے گی۔ یہ بھی ہدایت کی گئی کہ اگر وہ کوئی وصیت لکھنا چاہتے ہوں تو انھیں کاغذ اور قلم فراہم کر دیا جائے۔ اس پر مجید قریشی ان کے پاس آیا اور بتایا کہ مجھے افسوس ہے کہ آپ کی زندگی کا آخری وقت آن پہنچا ہے۔جس پر بھٹو نے غیر یقینی انداز میں مجید قریشی کی طرف دیکھا اور پوچھا۔ کیا نصرت کی ضیا الحقسے ملاقات نہیں ہوئی؟ نفی میں جواب ملنے پر انھوں نے دوبارہ پوچھا کہ کیا واقعی وہ ایسا کرنے والے ہیں؟ مجید قریشی نے بتایا کہ مجھے کہا گیا ہے کہ میں وصیت کے لیئےکاغذ اور قلم آپ کو دے دوں۔مجید قریشی وہاں سے چلا گیا اور بھٹو کافی دیر تک ان پرکچھ لکھتے رہے اورپھر سارے کاغذ پھاڑ ڈالے۔رات ایک بجے مجید قریشی دوبارہ کال کوٹھڑی میں آیا ۔مجھے کہا گیا ہے کہ میں وصیت کے لیئےکاغذ اور قلم آپ کو دے دوں۔مجید قریشی وہاں سے چلا گیا اور بھٹو کافی دیر تک ان پرکچھ لکھتے رہے اورپھر سارے کاغذ پھاڑ ڈالے۔رات ایک بجے مجید قریشی دوبارہ کال کوٹھڑی میں آیا ۔ اس نے دیکھا کہ ذوالفقار بھٹو بالکل بے حس و حرکت پڑے ۔وہ گھبرا گیا اور بھاگ کر جیل حکام کو بلا لایا۔سب نے آکر بھٹو کو دیکھا ان کی نبض دیکھی تومعلوم ہوا کہ وہ سو رہے ہیں۔انھیں جگایا گیا اور بتایا گیا کہ ان کے آخری غسل کےلئے پانی تیار ہے۔انھوں نے جوا ب دیا کہ وہ پاک ہیں۔ اس کے بعد ان سے پوچھا گیا کہ وہ پھانسی کے تختے تک جا سکیں گے یا سٹریچر منگوایا جائے ۔جس پر انھوں نے تعاون سے صاف انکار کر دیااور انھیں سٹریچر پر لے جایا گیا۔ انھوں نے اداسی سے جیل کی کال کوٹھڑی پر نگاہ ڈالی۔ وہاں سے انھیں تختے تک لے جایا گیا۔تارا مسیح نے ان کے چہرے پر ماسک چڑھایا۔ اور ان کے منہ سے نکلنے والے آخری الفاظ تھے ۔” فنش” جس کے بعد تاریخ کے عظیم لیڈر کا باب تمام ہو گیا۔ فنش” جس کے بعد تاریخ کے عظیم لیڈر کا باب تمام ہو گیا۔ارادہ تو تھا کہ دوست رؤف کلاسرا کی ”ایک سیاست کئی کہانیاں ” کے باقی بچے فیصل صالح حیات ‘آصف زرداری ‘ امین فہیم ‘ آفتاب شیر پاؤ’ سلطان محمود قاضی ‘ جنرل امجد’ ظفراللہ جمالی ‘میاں نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے انٹرویو کے ٹریلرز دکھاؤں مگر جب ذوالفقار بھٹو کا وہ شاہکار انٹرویو جو عالمی شہرت یافتہ اطالوی صحافی اوریانافلاچی نے لیا اور جسکا ترجمہ کرکے رؤف نے اسے اپنی کتاب کا حصہ بنادیا اسے پڑھا اور یہ سوچا کہ دسمبر چڑھ چکا اور بھٹو صاحب نے مغربی پاکستان کی باتیں بھی کی ہوئیں
پیپلز پارٹی کا 50واں یومِ تاسیس بھی ہو رہا اور یہ ایسی تحریر جو پڑھنے لائق بھی ‘لہٰذا ارادہ بدل کر اس انٹرویو کی چند جھلکیاں آپ تک پہنچا رہا ‘لیکن اس سوال کے ساتھ کہ بھٹو خاندان اور پیپلز پارٹی کے وہ تمام کارکن جنہوں نے جمہوریت اور پارٹی کیلئے جانیں قربان کیں کیا آج پارٹی کی سیاست اور پرفارمنس سے انکی روحوں کو سکون مل رہا ہوگا؟ ملاحظہ فرمائیں پہلے اور یانافلاچی کا بھٹو صاحب کی شخصیت پر تجزیہ اور پھر قائد ِ عوام کی باتیں! بھٹو صاحب پر پہلی نظر پڑی تو سامنے وہ دراز قد شخص جسکی عمر تو 44 سال مگر سر کے بال جھڑنا شروع ہوچکے ‘بالوں کی رنگت بھوری ہورہی ‘گہری پلکیں ‘ ہونٹ حتیٰ کہ آنکھوں کی پتلیاں تک تھکاوٹ زدہ اورآنکھوں میں عجیب سی اداسی جبکہ مسکراہٹ میں شرمیلا پن‘ ذوالفقار بھٹو کے ساتھ صرف 6 دن گزار کر ہی میں اس نتیجے پر پہنچ گئی کہ وہ تضادات کا مجموعہ ‘جیسے سانگھڑ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے غصے اور جو ش سے دونوں بازو لہراتے وہ ایسے شخص جنہیں تالیوں اور طاقت سے پیار‘ ہالہ کے لان میں لوگوں کو گھنٹوں انتظار کروا کر ’خوبصورت قالینوں پر شہزادوں کی طرح چلتے پھرتے‘ انگلی کے اشارے سے لوگوں کو اپنی طرف بلاتے اور بکرے کا صدقہ دیتےوہ ایسے انسان جن کا تعلق طبقہ اشرافیہ سے ’ملٹری ہیلی کاپٹر میں چواین لائی کی دی ٹوپی پہنے میرے سامنے وہ مارکسٹ بھٹو‘ جو پاکستان کو غربت اور بھوک سے آزاد کرانے کے خواہشمند مگر اپنی کامیابی جنہیں ہر شے سے عزیز اور پرانے ایرانی قالینوں ‘ائیر کنڈیشنوں اور عالمی رہنماوں کے ساتھ کھینچی تصویروں سے بھرے راولپنڈی اور کراچی کے گھروںمیں میری ملاقات ایسے بھٹو سے ہوئی جو اندرا گاندھی ‘مجیب الرحمان اور یحییٰ خان سمیت اپنے سیاسی دشمنوں پر حملے کر رہے ‘جو خوبصورت باتیں کرنے اور کتابیں پڑھنے کے شوقین ۔ایک دن بھٹو صاحب بولے ” شیخ مجیب پیدائشی جھوٹا ‘جھوٹ اسکی فطرت میں ‘ وہ بیمار ذہن کا جنونی ‘ مجھ پر یہ جھوٹا الزام لگادیا کہ بنگالیوں کی قتل وغارت یاوحشیانہ تشدد میں نے کروایا’ یہ چھوڑیں اس نے تو ایک بار سمندری طوفان میں مرنے والوں کا الزام مجھ پر لگا دیا ‘جیسے سمندری طوفان میں نے بھیجا ‘ پھر وہ یہ سفید جھوٹ بھی بول چکا کہ جب گرفتار ہوا تو اس نے مقدمے کو ا س قابل ہی نہ سمجھا کہ دفاع کرے اور اسے جیل کے سیل میں رکھا گیا ‘سچ یہ کہ بروہی سمیت 4وکلا ء نے اس کا کیس لڑا اور اسے تمام سہولتوں سے مزین ایپارٹمنٹ میں رکھاگیا ‘ ہاں میں مانتا ہوں کہ بنگالیوں کو قتل کیا گیا ‘ان پر تشدد ہوااور سب کچھ احمقانہ اور وحشیانہ انداز میں ہوا ‘اگر میں یہ کرتا تو اسے زیادہ سمجھداری ‘تھوڑے وحشیانہ پن اور زیادہ سائنسی انداز میں کرتا ‘ مجھے اچھی طرح یاد کہ میں ڈھاکا کے ہوٹل میں سویا ہوا تھا کہ اچانک گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے آنکھ کھلی‘ میں نے اپنے دوستوں کے کمروں سے بھاگنے کی آوازیں سنیں ‘ میں اُٹھ کر کھڑکی کی طرف گیا‘ پردہ ہٹایا ’سامنے دیکھا اور رو پڑا‘ میرے منہ سے بس اتنا نکلا میرا ملک ختم ہو گیا ہے۔ جب میرے حکم پر مجیب کو رہا کر کے میرے پاس راولپنڈی لایاجانے لگا تو یہ سوچ کر اسے شاید مارنے کیلئے لے جایاجارہا ‘وہ خوفزدہ ہو کررونے لگا ‘ خیراسے راولپنڈی کے ایک بنگلے میں پہنچا کر مجھے بتایا گیا ‘ میں ریڈیو ‘ٹیلی ویژن ‘ اور کپڑے لے کر اسکے پاس گیا