شعور آتے ہوئے دیر لگاتا ہے۔ میں بچپن سے ہی سیاسی ماحول میں پلا بڑھا ہوں۔ پندرہ برس تک بھیڑ چال حصہ رہا ۔ گزشتہ دہائی کے اوائل کی بات ہے، میں نے ابھی تازہ تازہ میٹرک کیا تھا ۔ ایک شادی کے سلسلے میں خاندان کے ہمراہ ہم راولپنڈی اسلام آباد میں تھے۔ شادی سے فارغ ہوئے تو سوچا کہ فیصل مسجد کی سیر کی جائے۔ فیصل مسجد کے ساتھ احاطے میں ایک چھوٹی سی قبر تھی۔ دریافت کیا کہ کس کی ہے تو معلوم ہوا کہ سابق صدرو آرمی چیف ضیا الحق کی ہے۔اُس وقت تک ضیا الحق ہیرو ہوا کرتا تھا۔ اب باقی لوگ تو اُس کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کیلئے چلے گئے، میں نے بھی سڑک سے سبزہ زار میں جانے کیلئے قدم اُٹھائے تو یک لخت رُک گیا۔ میرے والد محترم ساری صورتحال سے لاتعلق کھڑے تھے۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ ابو آپ نہیں جائیں گے؟ اُن کا جواب حیران کن تھا، اُن کے لہجے میں بے انتہا سختی تھی ۔ اُنہوں نے کہا کہ میں اس آدمی کی قبر پر نہیں جاؤں گا، اب یہ مر چکا ہے تو اِس کے بارے میں کیا کہوں ۔تم نے جانا ہے تو جاؤ، میں نہیں جا رہا۔ میں حیران رہ گیاکہ ضیا الحق کو شہید نہیں بلکہ ‘مر گیا’ کہا ہے اور اُس کی قبر پر فاتحہ تک نہیں پڑھی ہے۔ مطالعہ کا شوق بچپن سے تھا تو سوچ لیا کہ اِس موضوع پر پڑھنا ضرور ہے۔ پھر پڑھا ۔ حیرت اور حقیقتوں کے نئے دروازے بے رحمی کے ساتھ کھلے۔ اِس سال میں نے اپنے والد محترم کو چودہ برس پرانا واقعہ یاد کروا کر پوچھا کہ آپ اُس دن ضیا کی قبر پر کیوں نہیں گئے تھے؟ انہوں نے کہا وہ ایک منافق آدمی تھا، اُس کی قبر میں ایک ٹانگ اُس کی اپنی نہیں ہے۔ میں اُس کی قبر پر کیوں جاتا؟؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ بھٹو کو رات کی تاریکی میں پھانسی چڑھانے کے بعد’اُس کی برہنہ تصویر اتارنے اور ضیا الحق صاحب کو یہ یقین دلانے کے بعد کہ وہ مسلمان تھا، اُس کو جب زمین میں دفن کیا گیاتو وہ مکمل تھا۔
آپ بھٹو سے لاکھ اختلاف کر لیں، یہ اختلافات درست بھی ہیں، وہ 1971ء کے سانحہ کا مرکزی کردار تھا، وہ شرابی تھا، وہ متکبر تھا، وہ ظالم بھی ہوگا۔ اُس کی بہت سی پالسیاں غلط بھی تھیں لیکن اُس کے باوجود جس ظالمانہ طریقے سے بھٹو کو ایک جھوٹی ایف آئی آر سے پھانسی لٹکایا گیا، یہ صریحاً ظلم تھا،جس نے ہماری سیاست کو بالکل تبدیل کرکے رکھ دیا۔ بھٹو کو جس ایف آئی آر کے نتیجے میں پھانسی دی گئی تھی وہ نامور وکیل اور سیاست دان احمد رضا قصوری نے درج کروائی تھی۔ بعد میں اُنہوں نے قومی اسمبلی کے فلور پریہ بیان دیا کہ وہ ایف آئی آر ایک غلط فہمی کا نتیجہ تھی۔کیا آپ جانتے ہیں کہ بھٹو کے کیس میں جو فرد وعدہ معاف گواہ بنا تھا وہ کون تھا؟ وہ ایک قادیانی تھاجس کا نام مسعود محمود تھا۔ یہ بات درست ہے کہ قادیانی بھٹو سے جتنی نفرت کرتے ہیں اُتنی ہمارے مومنین بھی نہیں کرتے ہیں۔ بھٹو نے جب قادیانیوں کو کافر قرار دلوایا اور عین قانونی آئینی طریقے سے اُن کے فتنے کے آگے ایک مضبوط بندھ باندھ دیا تو فری میسن کے ساتھ ساتھ قادیانی بھی اُس کے دشمن بن گئے۔
آغاز میں مسئلہ قادیانیت پر بھٹو کو بھی اِس کی شدت کا احساس نہیں تھا لیکن جب عوامی دباؤ کے نتیجے میں اس کا آئینی اور قانونی حل نکالنے کیلئے اِس کو قومی اسمبلی میں لایا گیا اور وہاں پر اٹارنی جنرل نے اس مسئلے پر قادیانیوں سے مدلل جرح کی تو اُس کے جواب میں قادیانیوں کی باتیں ، دلائل اور حوالے سُن کر بھٹو جیسے سیکولر اور لبرل کے کان بھی سرخ ہو جاتے اور وہ سیٹ پر پہلو بدلتے رہتے۔ جب قادیانیوں کو کافر قرار دینے کے مسودے پر بھٹو نے دستخط کئے تو اُنہوں نے کہا کہ میں اپنی موت کے پروانے پر دستخط کر رہا ہوں۔ کرنل رفیع جو اُس وقت کے چیف سپرنٹنڈنٹ تھے’ وہ اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ بھٹو کا خیال تھا کہ ختم نبوت کا معاملہ اُن کیلئے باعث نجات بن جائے گا۔ واللہ اعلم، لیکن کچھ تو تھا کہ بھٹو جیسے سیکولر بندے نے موت کو سامنے دیکھتے ہوئے بھی رحم کی اپیل کی بجائے موت کو گلے لگانے کا فیصلہ کیا۔ موت کو گلے لگانے سے پہلے اُنہوں نے کرنل رفیع سے کہا کہ رفیع آج تو قادیانی بہت خوش ہونگے کہ اُن کا دشمن مارا جا رہا ہے۔
یہ بات بھی سامنے آئی کہ جس جج نے بھٹو کو پھانسی دی تھی وہ بھٹو سے ذاتی عناد رکھتا تھا۔ بھٹو نے جب اُس کو کسی وجہ سے ترقی نہیں دی تو وہ سروس چھوڑ کر بیرون ملک چلا گیا۔ بعد میں ضیا الحق کی نظر انتخاب اُسی جج پر پڑی، اُس کو سارے اصول و ضوابط کو پس پشت ڈال کر واپس لایا گیا، اُس کی عدالت میں بھٹو کا کیس لگوایا گیا اور نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کئے بغیر ہی بھٹو کو عجلت میں پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔جج کی غیر جانبداری کیلئے یہ کافی ہے کہ وہ جج صاحب نجی محفلوں میں برملاء کہتے تھے کہ میں اس بھٹو کو نہیں چھوڑوں گا۔ بھٹو صاحب نے درخواست دی کہ یہ جج متعصب ہے، یہ کیس نہ سنے تو وہ درخواست رد کر دی گئی۔
تنگی دامن کی وجہ سے میں یہاں پر بہت کچھ نہیں لکھ سکوں گا، لیکن میں سب سے ایک التجا کرتا ہوں کہ سوشل میڈیا سے تھوڑا سا وقت نکال کر کتاب سے رشتہ بنائیں۔ نامور صحافی اور وکیل آصف محمود صاحب نے بہت سی باتیں قارئین کے ساتھ شیئر کی ہیں۔ اُن کی مہربانی ہے کہ اُنہوں نے اس حوالے سے تاریخی دستاویزات بھی فراہم کی ہیں، آپ پڑھتے جائیں اور سوچتے جائیں کہ پاکستان میں ایک سابق وزیر اعظم کو ذاتیات کی وجہ سے کیسے بے رحمی اور ظالمانہ طریقے سے پھانسی چڑھایا گیا۔ بے نظیر بھٹو نے بھی اپنی بائیو گرافی میں اِس ظلم کی داستان رقم کی ہے، پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
بھٹو سے نظریاتی فکری اختلاف اپنی جگہ، لیکن جس طریقے سے اُس کو مارا گیا، و ہ اپنے آپ میں ایک ظلم تھا۔ بھٹو تاریخ میں تو کچھ تاریخی اچھائیاں بھی رکھتا ہے، شراب پر پابندی،قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانا، اسلامی سربراہی کانفرنس، پاکستان کا پہلا متفقہ آئین جو کہ آج بھی ترامیم کے ساتھ نافذ ہے، ایٹمی پروگرام کا آغاز، جس کا اعتراف ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی کرتے ہیں،چین سے تعلقات ، اسلامی دنیا سے تعلقات۔مثبت پہلوؤں کی بھی ایک فہرست ہے لیکن شاید ہم نفرت کرنے میں عصبیت کی آخری دہلیز بھی پار کر جاتے ہیں کہ دوسری طرف نگاہ ڈالنا بھی مناسب نہیں سمجھتے ہیں۔تاریخ کا انتقام دیکھئے، آج بھٹو کی برسی پر ہزاروں لوگ اُس کیلئے فاتحہ خوانی کرنے موجود ہونگے۔آپ کہ دیں کہ بھٹو مر چکا ہے لیکن آج کی تاریخ میں وہ زندہ ہے۔ کیا اس سے آدھے لوگ بھی سترہ اگست کو فیصل مسجد میں ضیاالحق کی فاتحہ پڑھنے موجود ہوتے ہیں؟ تاریخ کا اپنا سبق ہے۔ کوئی ہے جو اُس سے سبق سیکھے؟؟؟؟