عدالت نے اپنے حکم میں تحریر کیا کہ درخواست گزار کسی ایئرپورٹ، ریلوے اسٹیشن یا کسی اور راستے سے پاکستان سے باہر نہیں جائیں گے۔ درخواست کو نمٹاتے ہوئے عدالت کا کہنا تھا کہ یہ حکم 18 اکتوبر یا درخواست گزار کے ٹرائل کورٹ میں پیش ہونے تک کارآمد ہوگا۔وکیل نے اپنی درخواست میں کہا کہ لاہور کے جنگلات، وائلڈ لائف اور فشریز کے ایڈیشنل سیکریٹری کی جانب سے میرے موکل کے خلاف جھوٹ کی بنیاد پر مقدمہ دائر کروایا ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر جھوٹی ہے اور اس میں درج تمام شکایات بھی جھوٹ ہیں کیونکہ اس طرح کا کوئی الزام درخواست گزار سے سرزد نہیں ہوا۔ ان کے خلاف انکوائری اور تفتیش گھڑے گئے حقائق پر مبنی ہیں جو ایف آئی آر سے بھی مطابقت نہیں رکھتے۔درخواست کے ساتھ مذکورہ ایف آئی آر کی نقل بھی جمع کروائی گئی ہے جو ایڈیشنل سیکریٹری ٹیکنیکل جنگلات، وائلڈ لائف اور فشریز شاہد راشد اعوان نے 5 اکتوبر کو راولپنڈی میں درج کرائی تھی۔ ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ جنگلات کی ایک ہزار 170 کینال اراضی کا بحریہ ٹاؤن پرائیویٹ لمیٹڈ کے ساتھ تبادلہ کیا گیا جبکہ ایف آئی آر میں ریوینیو ڈپارٹمنٹ کے افسران اور عہدیداروں کو ملزمان کی فہرست میں شامل کیا گیا ۔وزیر اعلیٰ کی انسپکشن ٹیم کی جانب سے جاری کی گئی سمری کے تحت متعلقہ حکام کی منظوری سے باقاعدہ انکوائری بھی کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ جدید طریقے سے تمام سرکاری زمینوں کا تفصیلی سروے کروایا جائے اور بحریہ ٹاؤن سمیت دیگر رہائشی اسکیموں سے جنگلات کی زمینوں کو واگزار کروایا جائے۔ انکوائری رپورٹ میں کہا گیا کہ ایک اور انکرائری میں یہ بات سامنے آئی کہ بحریہ ٹاؤن لاہور نے موضع جالیان میں 60 کینال اراضی پر قبضہ کیا جو پی سی بی ایل کی زمیں تھی، اس لیے پنجاب بھر میں جہاں بھی بحریہ ٹاؤن رہائشی اسکیمیں بنارہا ہے وہاں پر سروے آف پاکستان وقت کی ضرورت ہے۔