اِس برس 4اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو شہید کی 40ویں برسی منائی گئی۔ دیکھنا یہ ہے کہ آج پاکستان کس طرف جا رہا ہے اور ذوالفقار علی بھٹو کی بنائی گئی سیاسی جماعت موجودہ حالات میں کہاں کھڑی ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت، خاص طور پر بلاول بھٹو زرداری ملکی تاریخ کے ایک اور اہم موڑ پر کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟
پاکستان پیپلز پارٹی 20ویں صدی کی چھٹی دہائی میں قائم ہوئی، دیکھتے ہی دیکھتے پیپلز پارٹی اُس وقت کے مغربی پاکستان کی سب سے بڑی اور مقبول سیاسی جماعت بن گئی تھی۔ اُس کا منشور اور پروگرام وقت کی آواز تھا۔ بھٹو شہید کو اُس وقت کے حالات کا نہ صرف تاریخ کے تناظر میں گہرا ادراک تھا بلکہ ان کا عوام کی نبض پر ہاتھ تھا۔ بھٹو نے یہ پارٹی قائم کرنے کے لئے دس سال پہلے سے ہوم ورک شروع کردیا تھا۔ وہ اس وقت کے سیاسی رہنمائوں، محنت کشوں، طلباء اور وکلاء رہنمائوں، دانشوروں، شاعروں اور ادیبوں کو جانتے تھے اور اُنہیں اس بات کا بھی ادراک تھا کہ کس لیڈر کی کیا اہمیت ہے۔ 30 نومبر 1967 کو ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائشگاہ پر جب پارٹی کا تاسیسی اجلاس منعقد ہوا تو اس میں وہ تمام لوگ موجود تھے، جو گزشتہ دو عشروں کی سیاست میں نمایاں کردار کے حامل تھے۔ اُس وقت بھی سیاسی قوتوں کا راستہ روکنے کے لئے ’’پروڈا‘‘ اور ’’ایبڈو‘‘ جیسے احتساب کے سیاہ قوانین کا بے رحمانہ اطلاق ہوا تھا اور احتساب کا عمل جاری تھا لیکن پیپلز پارٹی اور اس قیادت پر کوئی ہاتھ نہ ڈال سکا اور اس سیاسی جماعت نے سیاست کو ڈرائنگ رومز سے نکال کر سڑکوں پر پہنچا دیا۔ پھر جب پاکستان کا بحران اپنے منطقی انجام کو پہنچا اور پاکستان دو لخت ہوا تو باقی ماندہ پاکستان میں اگر کوئی ادارہ باقی بچا تھا تو وہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی کی شکل میں تھا، جس نے ملک اور اداروں کی تعمیر نو کی۔ پیپلز پارٹی نے پاکستان کو پہلا متفقہ آئین دیا۔ اس متفقہ آئین کی وجہ سے پاکستان میں ایک ورکنگ اتفاق رائے آیا۔ بھٹو نے یہ پیغام دیا کہ لیڈر وہ ہوتا ہے، جو ملک میں تقسیم اور پولرائزیشن کو ختم کرے اور اتفاق رائے پیدا کرے۔
مقتدر حلقوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی تحریک کے ذریعہ ملک میں ایک بار پھر پولرائزیشن پیدا کی۔ یہ پولرائزیشن یا تقسیم ملک کے لئے تباہ کن تھی۔ بھٹو کی شہادت کے بعد بیگم نصرت بھٹو نے پارٹی کی کمان سنبھالی اور اس تقسیم کو ایک بار پھر جمہوری اور غیر جمہوری میں بدل دیا۔ بیگم نصرت بھٹو کے سیاسی وژن سے تحریکِ بحالیٔ جمہوریت (ایم آر ڈی) قائم ہوئی، جس میں وہ لوگ بھی شامل تھے، جو کبھی پی این اے کا حصہ تھے اور بھٹو کی پھانسی کا مطالبہ کررہے تھے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھنا اُس وقت پیپلز پارٹی کی قیادت کے لئے مشکل ترین فیصلہ تھا لیکن اس سے سیاسی قوتوں کی وہ تقسیم ختم ہوگئی، جو غیر جمہوری قوتوں کے مفاد میں ہوتی ہے۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ ایم آر ڈی اس خطے کی تاریخ کی سب سے بڑی مزاحمتی تحریک بن گئی۔ بیگم نصرت بھٹو کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے پارٹی کی قیادت سنبھالی تو وہ بھی تمام قوتوں کو اپنے ساتھ لے کر چلیں۔ پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف اتحاد برائے بحالیٔ جمہوریت (اے آر ڈی) میں تمام جمہوری، وطن پرست اور ترقی پسند قوتیں ایک پلیٹ فارم پر متحد رہیں۔ پارٹی کے قیام سے لے کر محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت تک ملک بڑے بحرانوں سے دوچار رہا ہے۔ پیپلز پارٹی نے ان بحرانوں کے باوجود سیاسی پولرائزیشن کو ختم کر کے پاکستان کی اُن بحرانوں میں بھی سمت درست رکھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد آصف علی زرداری نے بھی 18ویں آئینی ترمیم منظور کرا کے سیاسی پولرائزیشن کو بہت حد تک ختم کردیا۔ پیپلز پارٹی کے لئے بھی بہت مشکل دور آئے۔ ان سے بھی پارٹی نکلتی رہی۔
اب بلاول بھٹو زرداری کے لئے بڑے چیلنجز ہیں۔ پیپلز پارٹی اپنے نظریات اور اصولوں سے ہٹ کر ایک بھیڑ بن چکی ہے۔ قیادت زیادہ تر غلط ہاتھوں میں چلی گئی ہے، جہاں کرپشن، اقربا پروری اور بیڈ گورنس ہے۔ پی پی پی خارجہ فرنٹ، اندرونی ملک کے بارے میں، طلبہ، محنت کشوں، کسانوں اور دانشوروں سے دور ہو گئی ہے۔ آج پھر پاکستان انتشار کا شکار ہے۔ سیاسی پولرائزیشن میں اضافہ ہو چکا ہے۔ خود سیاسی جماعتیں بھی انتشار کا شکار ہیں۔ پاکستانی سماج میں نئے تضادات ابھر رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں تباہ کاریوں کا ایک خطرناک تاریخی مرحلہ مکمل ہونے کے بعد وہاں سے نئے طوفان اٹھنے کے حالات بن گئے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے احتساب کا پرانا ہتھیار اب پہلے سے زیادہ بے رحمی کے ساتھ استعمال کیا جارہا ہے۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی پولرائزیشن میں صف بندی سب سے مختلف ہے۔ تحریک انصاف اور عمران خان کی سیاست زیادہ دیر تک چلنے والی نہیں۔ یہ سیاست فکر اور نظریات سے عاری ہے۔ اس میں بھانت بھانت کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ان سے 18ویں آئینی ترمیم اور قومی مالیاتی ایوارڈ (این ایف سی) کو متنازع بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں، جن پر قومی اتفاق رائے تھے۔ پاکستان کی وفاقی اکائیوں کو تقسیم کر کے نئے صوبے بنانے کی بھی باتیں ہورہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی قلعہ سندھ سے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے وفاقی وزیر بیرسٹر فروغ نسیم نے وزیراعظم سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 149 کے تحت سندھ میں مداخلت کریں کیونکہ پیپلز پارٹی کا اینٹی کراچی اور اینٹی سندھ اسٹینڈ ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں احساسِ محرومی بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ سندھ کو تقسیم کرنے اور یہاں نیا صوبہ بنانے کا مطالبہ نہیں ہورہا ہے لیکن یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں نئے صوبے کا مطالبہ کررہی ہے۔ پنجاب میں نیا صوبہ بنانے کے اسباب سندھ میں پیدا نہ ہونے دیئے جائیں۔ شہری سندھ کی سیاسی قوتیں اپنے لوگوں کو یہ باور کروا رہی ہیں کہ انہیں سندھ میں نوکریوں میں جائز حصہ نہیں دیا جارہا۔
بلاول بھٹو زرداری کے لیے بہت چیلنجز ہیں۔ پاکستان 1960 کے عشرے کی طرح آج پھر بڑے بحرانوں سے دوچار ہے۔ پیپلز پارٹی اور بلاول بھٹو زرداری کا پاکستان کی سیاست میں اہم کردار ہے۔ ان چیلنجز اور بحرانوں سے نکلنے کے لیے بلاول بھٹو زرداری کو اپنے نانا، نانی اور والدہ کے سیاسی وژن سے رہنمائی حاصل کرنا ہو گی۔ اپنی نئی صف بندیاں کرنا ہوں گی، سمت کا تعین کرنا ہو گا۔