لاہور (ویب ڈیسک) سانحہ ساہیوال پر وزیر اعظم صدمے میں ہیں۔ افسوسناک سے زیادہ شرمناک بات ہے کہ سانحہ ساہیوال کے متاثرہ خاندان کو مالی امداد کی پیشکش کچھ اس طرح کی گئی گویا بولی لگائی جا رہی ہو۔ وزرا کی بوکھلاہٹ‘ بدلتے ہوئے پینترے اور ڈھٹائی نے اس دلخراش واقعہ کو مزید ہولناک بنا دیا ہے۔نامور کالم نگار آصف عفان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ صدمے سے نڈھال اور گھائل معصوم بچوں کی عیادت اور پھولوں کے ہمراہ ان کے ماں باپ اور بہن کی تعزیت کے مناظر نے قوم کے غم و غصے کو ضربیں لگا دی ہیں۔ متاثرہ خاندان نے دو کروڑ کی حکومتی امداد پر چارحرف بھیج دیئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اپنے دو کروڑ پاس ہی رکھو ہم سے ڈھائی کروڑ لے لو ہمیں ہمارے پیارے واپس لا دو۔ اہل علاقہ و معززین نے حکومتی دعوے اور الزامات مسترد کر دیئے ہیں‘ جبکہ تحریک انصاف کے مقامی عہدیداروں اور حکومتی ایم پی اے نے بھی ذیشان اور خلیل کے خاندان سے یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ بربریت کا نشانہ بننے والوں کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہ ہے۔ اگر جے آئی ٹی رپورٹ ان کے خلاف بھی آئی تو ہم متاثرہ خاندان کے احتجاج کا حصہ بنیں گے۔اس سانحہ پر وزرا کی نااہلی اور شرمناک ردعمل حکومت کے لئے طعنہ بن گیا ہے۔ حکومتی بنچ اس دلخراش واقعہ کی ذمہ داری سابقہ حکمرانوں پر ڈال رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بر بریت کے یہ واقعہ سابقہ حکمرانوں کا کلچر ہے‘ تا ہم سیاسی جماعتوں کی پوائنٹ سکورنگ جاری ہے۔ظلم کا پہاڑ توڑنے والے سب انسپکٹر صفدر اور دیگر چار اہلکاروں کے نام منظر عام پر حکومت لے آئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دن دیہاڑے‘ چلتی سڑک پر خون کی ہولی کھیلنے کا اختیار اس سب انسپکٹر کو دیا کس نے؟ اگر وہ اپنی ڈیوٹی پر تھا تو کسی اتھارٹی نے اسے گولیوں کی بوچھاڑ کرنے کی اجازت تو دی ہوگی‘ کسی سے تو پوچھا ہوگا اس نے‘ اتنا بڑا فیصلہ کرنے کی اس کی اوقات کیا ‘مجال کیا؟ اس کے بارے میں ایس او پی موجود ہے۔ اس تناظر میں چین آف کمانڈ کیسے اس اندوہناک واقعہ سے بری الذمہ ہو سکتی ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ سی ٹی ڈی انسدادِ دہشت گردی کا ایک انتہائی اہم ادارہ ہے۔ ماضی کی بے شمار کارروائیاں یقینا قومی خدمات کا درجہ رکھتی ہیں‘ لیکن گزشتہ چند سالوں سے سی ٹی ڈی کی بے احتیاطی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سوالات کو سانحہ ساہیوال نے تقویت دی ہے اور اب موجودہ صورتحال میں سی ٹی دی کے سیکرٹ فنڈز، سہولیات، اضافی تنخواہیں اور دیگر مراعات کے باوجود اس قسم کے ایڈوینچر نہ صرف بد نامی بلکہ کڑی جواب دہی کا باعث بن چکے ہیں۔ سانحہ ساہیوال کی ڈرامائی کہانی حکومت کے لیے بڑا چیلنج بن چکی ہے۔بات کے نکلنے اور دور تک جانے کے اندیشوں نے نہ جانے کتنوں کی نیندیں اچاٹ کر رکھی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بَلی کا بکرا کس کس کو بنایا جاتا ہے اور بچایا کس کس کو جاتا ہے؟ ظاہر ہے ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا نظر آرہا ہے۔ ٹاپ لیول چونکہ مقدس گائے‘ شجر ِممنوع اور نہ جانے کیا کیا ہوتا ہے؟ اس لئے انہیں بچانے کے لئے ماتحت سٹاف کو ایندھن بنانے میں کبھی کوئی ہچکچاہٹ اور عار محسوس نہیں کی جاتی‘ تا ہم ابتدائی معلومات اور ذرائع کے مطابق ٹاپ لیول کو ”مائنر‘‘ اور لولیول کو ”میجر‘‘ سزائیں دے کر ماضی کی اس روایت کو جاری رکھا جاسکتا ہے۔ اگر ماضی میں کبھی کسی سربراہ یا اتھارٹی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہوتا تو آج یہ دلخراش واقعہ نہ ہوتا۔ جب اعلیٰ حکام کو پتہ ہو کہ کبھی کسی ”ایڈونچر‘‘ کی ذمہ داری مجھ پر ہی عائد ہوگی اور جواب دہی بھی میری ہوگی تو مانیٹرنگ اور احتیاط میں کیسے غفلت ہوسکتی ہے؟ اور جب اعلیٰ حکام کو یقین ہو کہ ”بَلی‘‘ دینے کے لئے ماتحت سٹاف کثیر تعداد میں موجود ہے‘ انہیں کسی بھی ”بلنڈر‘‘ کی صورت میں اپنی غفلت اور کوتاہی کی بھینٹ چڑھایا جاسکتا ہے۔غضب خدا کا ایک سب انسپکٹر لیول کا تھانیدار ہنستے ہنستے خاندان کو گولیوں سے بھون کر رکھ دے‘ اس کی کیا اوقات ‘کیا مجال ‘جب تک اعلیٰ افسران کی آشیرباد نہ ہو اور چلتی سڑک پر فائرنگ بھی ایسے کہ گویا حق و باطل کا معرکہ ہو اور پھر انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی سے ڈنکا بجایا جائے کہ قومی خدمت پر مامور اس ادارے کے فرض شناس اور بہادر جوانوں نے چار دہشت گرد کیفرکردار تک پہنچاکر اس دھرتی ماں پر بہت بڑا احسان کر ڈالا ہے۔ وہ تو بھلا ہو اس ملک کے غیور اور دردِ دل رکھنے والے عوام کا… موقع کے عینی شاہدین نے اس ”قومی خدمت‘‘ کا نہ صرف پول کھول دیا بلکہ غم و غصے کا پہاڑ بن کر کھڑے ہوگئے اور نتائج سے بے پروا ہو کر اس عظیم الشان کارنامے کی ”اوقات‘‘ اور ”اصلیت‘‘ کھول کر رکھ دی‘پوری قوم سراپا احتجاج بن گئی۔ قوم کے اس شدید ردعمل اور متضاد حکومتی بیانات نے جھوٹ کے پاؤں ٹکنے نہ دئیے۔ باوجود ہزار کوشش کے سی ٹی ڈی اور حکمرانوں کا کوئی ڈھونگ اور حربہ کامیاب نہ ہو سکا۔ اب یہ عالم ہے کہ یہ وزرا اپنے ہی شرمناک بیانات کی پکڑ میں آچکے ہیں‘ جگ ہنسائی کے باوجود بڑی ڈھٹائی سے متاثرہ خاندان سے اظہارِ تعزیت کرتے نظر آرہے ہیں۔جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے سے قبل ہی اس پر عدمِ اعتماد کر دیا گیا ہے۔ متاثرہ خاندان کا کہنا ہے کہ ہمیں انصاف کی توقع نہیں ہے‘ جبکہ جے آئی ٹی نے جائے واردات پر عینی شاہدین کے بیانات قلمبند کرنے کے بجائے انہیں پولیس ریسٹ ہاؤس میں بذریعہ مقامی پولیس طلب کیا تو انہوں نے وہاں جانے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم سے بیان لینا ہے تو جائے وقوعہ پر آئیں‘ ہم کسی ریسٹ ہاؤس میں بیان نہیں دیں گے۔ ویسے عینی شاہدین کا یہ مؤقف اور احتیاط دونوں ہی عین منطقی ہیں‘ یعنی عینی شاہدین بھی جے آئی ٹی کے اس طریقہ کار سے غیر مطمئن اور بداعتمادی کا شکار ہیں اور ریسٹ ہاؤس میں ”خدا جانے وہ کیا پوچھیں… زبان میری سے کیا نکلے‘‘ کے مصداق احتیاط ہی لازم ہے۔ ویسے عینی شاہدین کی غیرت اور جرأت کو سلام ہے کہ وہ جے آئی ٹی کے سامنے ڈٹ گئے۔ دیکھتے ہیں کہ جے آئی ٹی عینی شاہدین کے بیانات کے بغیر کیا رپورٹ مرتب کرتی ہے۔ رپورٹ جو بھی آئے‘ مرنے والوں نے مر کے بھی چین نہ پایا۔انہیں دہشت گرد‘ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث اور نجانے کیا کیا ابھی بنانا باقی تھا کہ ان کا خون بول اٹھا کہ ہم دہشت گرد نہیں‘ہمیں ناحق مارا گیا۔ مرنے والوں کے خون کی آواز پر پوری قوم نے ”لبیک‘‘ کہا اور گواہی بھی دی کہ ظلم اور بریریت کا نشانہ بننے والا خاندان دہشت گرد نہیں ہے…اور رہی بات ذیشان کی تو اس کو دہشت گرد ثابت کیے بغیر ادارے کے پلے کچھ رہتا نہیں ہے اور اسے دہشت گرد ثابت کر کے ہی ”گیہوں کے ساتھ گھن‘‘ پیسنے کا مارجن لیا جا سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر حالیہ کارروائیاں اور کارہائے نمایاں سبھی سوالیہ نشان بن سکتے ہیں اور پھر لمبے چوڑے سیکرٹ فنڈز، مراعات لامحدود اختیارات اضافی تنخواہیں بھی تو سوالیہ نشان بن سکتی ہیں۔ان تمام سوالیہ نشانات کو مٹانے اور حل کرنے کا ایک ہی نسخہ ہے اور وہ ہے کہ ذیشان دہشت گرد تھا اور ذیشان کے خلاف کارروائی میں ایک بے گناہ خاندان مارا گیا اور اس خاندان کی اس عظیم قربانی کو حکومت قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور مالی پیکج کے ساتھ کسی سرکاری اعزاز کا بھی اعلان کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ اس متوقع صورتحال کے باوجود حالات و واقعات چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں وہ بھلے دہشت گرد ہی کیوں نہ ہوں‘ نہتے اور بے بس مسافروں پر گولیوں کی بوچھاڑ کرنے کا حکم کس نے دیا؟ ایسے میں اس سانحہ کا ذمہ دار کون کون ہے؟ اخلاقی اور قانونی تقاضے تاحال حکومتی دعوؤں کا منہ تک رہے ہیں۔ دن دیہاڑے ناحق مارے جانے والے رسوائیاں سمیٹ کر ریاست کی بھینٹ تو چڑھ گئے… کل روزِ محشر ان کا ہاتھ کس کس کے گریبانوں پر ہوگا؟ ان کو ناحق مارنے والے ہوں یا ان پر بہتان لگا کر رسوا کرنے والے حکمران… سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب یہاں نہیں تو وہاں تو دینا ہی پڑے گا‘ وزیراعظم ویسے بھی صدمے میں ہیں۔