لاہور (ویب ڈیسک) حکومت نو ماہ کے طویل عرصے میں بھی سیاسی اور معاشی سمت طے نہیں کر سکی۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے میں تاخیر سے لے کر مہنگائی کنٹرول کرنے تک نہ صرف عوام کو حکومت سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ سرمایہ کاروں کو بھی الجھن میں ڈال دیا گیا۔ نامور کالم نگار کنور دلشاد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم کی کچن کیبنٹ نے خود ہی وزارت خزانہ اور اس کے متعلقہ محکموں میں ہر سطح پر بے چینی کو فروغ دیا اور اہم تبدیلیاں کر ڈالیں جیسا کہ وزیر خزانہ ، چیئرمین ایف بی آر، گورنر سٹیٹ بینک اور سرمایہ کاری بورڈ کے چیئرمین اور آخر میں فنانس سیکرٹری کی تبدیلی۔یہاں وزیراعظم عمران خان نے اپنے خاص بندوں کو برطرف کیا اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کے درمیان اختلافات دور کرنے میں ناکامی کے بعداپنا اعتماد سیاسی ٹیم سے ٹیکنوکریٹس کی جانب منتقل کر دیا۔ دعا کرنی چاہیے کہ ٹیکنوکریٹس کی ٹیم وزیر اعظم کو مایوس نہ کرے اور آنے والا بجٹ عوام خوشحالی کا مظہر ثابت ہو ۔ جہاں تک سول اور ملٹری تعلقات کا معاملہ ہے تو موجودہ حالات میں قومی سلامتی اور خارجہ امور پر بمشکل ہی کوئی نا اتفاقی پائی جاتی ہے ‘البتہ حکومت فوجی عدالتوں میں توسیع جیسے معاملات پر اپوزیشن سے بامقصد مذاکرات کے ذریعے اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب ثابت نہیں رہی‘ تاہم حکومت اگر FATF میں ناکام ہو جاتی ہے تو خود کو بہت مشکل پوزیشن میں پاسکتی ہے کیونکہ اس کا فیصلہ آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج پر بھی اثر انداز ہو گا۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ پولیٹکل انجینئرنگ میں مہارت رکھتے ہیں‘ انہوں نے وزیر اعظم کو یقین دلایا ہے کہ دو سے تین برسوں میں معاملات ٹھیک ہوجائیں گے ۔ انہوں نے وزیراعظم کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی کوشش کریں۔ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے حکومت کو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ معاشی استحکام اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے ۔مشیر خزانہ نے چونکہ آئین کے آرٹیکل91 کے تحت حلف نہیں اٹھایا ‘ اس لیے توقع کی جارہی ہے کہ عمر ایوب خان ہی قومی بجٹ پیش کریں گے۔ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ نے بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت عسکری اخراجات کم کرنے کی نوید سنا دی ہے ‘ تاہم موجودہ حالات میں پاکستان دفاعی بجٹ میں کٹوتی کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔دوسری جانب آئندہ بجٹ میں 55 کھرب روپے مالی و صولیوں کا ہدف پوری معیشت کو ہلا کر رکھ دے گا ۔ 1837ارب روپے تک ترقیاتی بجٹ ،بجلی اور گیس صارفین پر 216 ارب کے اخراجات ،30 ارب روپے فوڈ سبسڈی اور 80 ارب روپے کا احساس پروگرام اور6.0 فیصد ابتدائی خسارے کے ایڈجسٹمنٹ کا اثر دفاعی بجٹ پر پڑے گا ۔55 کھرب روپے کا ہدف ایف بی آر کے اعزازی چیئرمین سید شبر زیدی کو تفویض کیا گیا ہے ۔ موجودہ معاشی بحران میں یہ ایک مذاق ہی نظر آتا ہے۔ ہر کسی کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ ہدف کیونکر حاصل کیا جا سکے گا؟ دس کھرب روپے کے اضافی ٹیکس کیسے نافذ کیے جا سکیں گے؟ موجودہ بجٹ پہلے ہی قابو سے باہر ہے جبکہ حکومت 11 جون کو یہ بجٹ پیش کرے گی تو قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ تین چار ماہ بعد خامیاں ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گی۔ ٹیکس میں 34 فیصد اضافے کا ہدف سمجھ سے بالاتر اور صاف نہ ممکن ہے جبکہ چار فیصد شرح نمو کا ہدف بھی مشکوک ہے ۔ آئی ایم ایف نے آئندہ مالی وسائل کے لئے جی ڈی پی کی شرح نمو 7.2فیصد اور 8.2 فیصد کے درمیان بتائی ہے ۔ موجودہ زمینی حقائق اور جغرافیائی اور سٹریٹجک صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان دفاعی بجٹ میں کٹوتی کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔حکومت بچگانا کھیل کھیل رہی ہے۔ یہ پرانا طریقہ ہے لیکن آخر کار اس سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔پاکستان پر بہت زیادہ اثر انداز ہونے والی تیز تر علاقائی اور عالمی تبدیلیاں اور پاکستان کے اندر ابتری کی شکار معیشت کی وجہ سے عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی اس امر کی متقاضی ہیں کہ پاکستان کے حقیقی مقتدر حلقے اپنی روایتی حکمت عملی سے انحراف کا راستہ اختیار کریں‘ کیونکہ اب وہ حالات نہیں رہے ، اب وہ وقت بھی نہیں رہا کہ پاکستان میں سیاسی قوتیں کمزور ہوں اور پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو‘ پاکستان ایک سکیورٹی سٹیٹ بنے اور پاکستان کے تمام داخلی اور خارجی امور کی ذمہ داری سکیورٹی اداروں پر ڈال دی جائے۔سرد جنگ کے عہد اور بعد ازاں نئے عالمی ضابطے والے عہد میں اگرچہ ایسا ہوتا رہا ہے ۔ اہم مسئلہ یہ ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی سوچ زیادہ سیاسی نہیں اور سیاسی جماعت کے طور پر پاکستان کے داخلی اور خارجی معاملات میں اس کا کوئی اہم اتحادی بھی نہیں ۔ان حالات میں بجٹ کے دوران اپوزیشن حکومت پر شدید تنقید کرے گی اور قومی اسمبلی میں بجٹ کی منظوری حکومت کے لیے شدید مشکل بن جائے گی ۔ اپوزیشن نے اسی دوران اسلام آباد کو جام کرنے کی تحریک بھی شروع کر دی تو حکومت کے لیے مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔ مائنس عمران خان کی تجویز پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رانا ثنااللہ دے چکے ہیں ۔ کیا تحریک انصاف میں متبادل قیادت کو آگے لایا جائے گا؟شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے درمیان شدید اختلافات ہیں اور موجودہ پارلیمنٹ اور پنجاب اسمبلی میں جہانگیرترین کا پلڑا بھاری ہے‘ لہٰذا ایسی تیسری شخصیت کو سامنے لانا پڑے گا جو ملک کے دیگر پارلیمانی سیاسی جماعتوں کو بھی قابل قبول ہو۔ اس پس منظر میں پاکستان کے سیکرٹری خزانہ یونس ڈھاگا ،بورڈ آف انویسٹمنٹ کے چیئرمین ہارون شریف کا استعفیٰ وہ بھی اس بنیاد پر کہ پاکستان کی معیشت عالمی مالیاتی ادارے کی ٹیم کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے ‘اب ان کا ان عہدوں پر کام کرنا فضول ہے ،بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ انہوں نے مستقبل میں اپنی اہم جگہ بنانے کے لیے ہی استعفے دیے ہوں گے۔ اب وقت آگیا ہے کہ روایتی سوچ سے انحراف کیا جائے۔ پاکستان کو سیاسی طور پر مضبوط اور مستحکم بنانا ہوگا‘ اس کے لئے سیاسی قوتوں کے ساتھ معاملات طے کرنا ہوں گے ۔اگر وزیراعظم عمران خان نے غیر مقبولیت سے نکلنا ہے تو قومی بجٹ پیش کرنے سے پیشتر بعض وزرا کو فارغ کرنا ہوگا۔ وزیراعظم آفس میں مقیم ایسے تمام مشیران اور معاون خصوصی کو فارغ کرنا ہوںگے جو وزیر اعظم کی سیاسی سوچ پر بوجھ بنے ہوئے ہیں ۔ علاوہ ازیں پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں متواتر آنا پڑے گا تاکہ ان کے اردگرد محلاتی سازشیں نا کام ہو جائیں۔وزیراعظم عمران خان نے معاون خصوصی ،مشیروں اور ترجمانوں کا جو رتن سجایا ہوا ہے ان کی وجہ سے وزیر اعظم پبلک ہول کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ بھارت میں نریندر مودی کی کامیابی کے بعد اگلے کئی سال تک سب سے زیادہ توجہ بلوچستان پر دینا ہوگی کیونکہ بھارت اس کمزور گوشے سے اپنے تعصبات کو اجاگر کرے گا‘ لہٰذا بلوچستان پر وزیراعظم کی خصوصی توجہ ملک کے بہترین مفاد میں ہو گی ۔ فاٹا کے 16 اضلاع میں دو جولائی کو انتخابات بھی ملکی مفاد میں ہیں لہٰذا 26 ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ موخر کر دیں اور سینیٹ میں یہ بل صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے بعد پیش کیا جائے ۔ ارکان پارلیمنٹ سستی شہرت کی خاطر بیانات دینے سے گریز کریں ،سابقہ فاٹا کے آٹھ اضلاع میں صوبائی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد صوبائی حکومت کی قسمت کا فیصلہ سامنے آجائے گا۔ اگر پشتون تحفظ تحریک نے دیگر اپوزیشن جماعتوں کے اشتراک سے نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی تو صوبہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کو خطرہ لاحق ہونے کا امکان موجود ہے۔ اس طرح بھارت فاٹا میں اپنا اثر و رسوخ مزید بڑھائے گا اور پشتون تحریک اپنے مذموم ارادے لے کر آگے بڑھے گی۔چند روز پیشتر پشتون تحفظ تحریک کے محسن داوڑ اور علی وزیر‘ جو قومی اسمبلی کے ممبر بھی ہیں‘نے قانون کو ہاتھ میں لے کر خون ریز تصادم کروایا جس کا مقصد انتخابی مہم کو سبو تاژ کرنا تھا‘ اس طرح انہوں نے صوبائی حکومت کو ڈیفنس لائن پر کھڑا کر دیا ہے ۔ان کا مقصد حکومتی جماعت کے امید واروں کے لئے انتخابی راستوں میں رکاوٹیں ڈالنا تھا ۔