لاہور (ویب ڈیسک) یہ 26 اپریل کا دن ویسا ہی تھا‘ جیسے اپریل کا پورا مہینہ۔ ویسے تو سارے دن عام ہی ہوتے ہیں لیکن واقعات یا حادثات انہیں خاص بنا دیتے ہیں۔ 2012 کی اس صبح 8:50 پر میں ڈریسنگ روم میں سپریم کورٹ جانے کے لئے وکالتی وردی پہن کر تیار ہو رہا تھا۔ نامور سیاستدان ، قانون دان اور کالم نگار بابر اعوان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔بیگم صاحبہ نے موبائل فون پکڑاتے ہوئے کہا: کوئی گیلانی صاحب بات کر رہے ہیں۔ دوسری جانب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی تھے۔ لمبے عرصے بعد انہوں نے رابطہ بحال کیا تھا۔ اس دوران میں نے کابینہ سے استعفیٰ دیا۔ کابینہ کے اکثر کولیگ خورشید شاہ گروپ میں شامل تھے‘ جن سے بول چال تو کیا علیک سلیک بھی استعفے کے واقعہ کے بعد سے ختم ہو چکی تھی۔وزیر اعظم نے کال کرنے کا مقصد بتایا کہ کوئی لاسٹ منٹ ایڈوائس کر دیں۔ میں نے کہا، آپ کے پاس اور کون کون ہے؟ جواب آیا ” نو بڈی‘‘۔ میں نے کہا: ایڈوائس کے دو حصے ہیں۔ آپ کے ارد گرد جتنے نو بڈی بیٹھے ہوئے ہیں‘ ان کی گاڑیوں کی ڈگیاں چیک کروا لیں۔ رضا ربانی کے علاوہ، سب میں تیار شیروانیاں پڑی ہوئی ہیں۔ یہ سارے ہی وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ اس پر بیک گرائونڈ سے زوردار قہقہہ سنائی دیا۔ پتہ چلا کہ گیلانی صاحب فون کا سپیکر آن کر کے اپنے آفس کی لینڈ لائن سے بول رہے تھے۔ ایڈوائس کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ آپ عدالت میں اپنے وکیلوں کا وکالت نامہ کینسل کر دیں اور کہیں کہ میری توقع کے مطابق میرا ڈیفنس پیش نہیں ہو سکا‘ اس لئے مجھے مزید وقت دیا جائے۔ میں نیا وکیل کروں گا یا خود ہی اپنا مقدمہ لڑوں گا۔ وزیر اعظم کا اگلا سوال تھا: اس سے کیا ہو گا؟ میں نے کہا: اس سے آپ کو 4/6 ہفتے مل جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر نئے دن کے سورج میں علیحدہ انرجی رکھ چھوڑی ہے۔ اس لئے، ہر نیا دن نئے مواقع لاتا ہے، ” یو وِل سیو دی ڈے‘۔ گیلانی صاحب نے کہا: میرا وکیل تو کہتا ہے کہ جیل جا کر بھی وزیر اعظم میں ہی رہوں گا۔ اس بارے میں آپ کا کیا تبصرہ ہے: میں نے کہا، مبارک ہو… عدالت کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی آپ کو جیل پہنچا دیا گیا ہے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ معلوم تاریخ ہے۔آج 2019 میں چہرے اور مہرے‘ دونوں بدل چکے ہیں‘ لیکن تاریخ تبدیلی سے انکاری ہے۔ انکار کے کمالِ فن کے کچھ شاہکار، ان دنوں پردۂ سکرین پر جگنو بن کر جگمگا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر سیفما والے عالم، سیاسی عالمِ دین کی رہنمائی فرما رہے ہیں۔ کسی زمانے میں رہنمائی کے طالب چل کر اہل علم کے پاس جاتے تھے۔ آج جہاں گیری کے طالب دست گیری کے لئے سیفما والے عالم کے دفتر جاتے ہیں۔ ڈی آئی خان سے لاہور۔ یہ وہی عالم ہیں جن کی تقریب میں نواز شریف نے پاکستان کے مشرقی بارڈر کو واہگہ والی ”ایویں ای لکیر‘‘ کہا تھا۔ یہ تو معلوم نہیں کہ احمد فراز نے یہ کس کے لئے کہا تھا، لیکن ان حالات میں بالکل ٹھیک کہا تھا: یہ ”عالم‘‘ شوق کا دیکھا نہ جائے۔۔وہ بُت ہے یا خُدا، دیکھا نہ جائے۔۔انویسٹمنٹ یا سرمایہ کاری کے بین الاقوامی تنازعات طے کرنے والے ٹریبونل میں ایک پروسیجر کا نام ہے ولچر فنڈ۔ ایسے لگتا ہے نواز شریف صاحب کے حوالے سے، ان دنوں اُن کے ”دردیوں‘‘ نے بڑی بے دردی سے ولچر کلچر اپنا لیا ہے۔ نواز شریف تا دمِ تحریر، قائم دائم ہیں۔ بقائمیٔ ہوش و حواس۔ لیکن گاڑیوں کی ڈگی میں شیروانی رکھنے والے کہہ رہے ہیں کہ اگر وہ خدانخواستہ گزر گئے تو اس کا ذمہ دار وزیر اعظم عمران خان نیازی ہو گا۔ کسی بھی بیمار کے لئے اس قدر بے رحمانہ جملہ صرف سیاست میں ہی سنا، لکھا اور بولا جا سکتا ہے۔ عام زندگی میں تیمار داری کے لئے مہذب لوگ کہتے ہیں ” سنا ہے، آپ کے دشمنوں کی طبیعت کچھ نا ساز ہے‘‘ ہر مریض بسترِ مرگ تک امید کے سہارے علاج کرواتا ہے۔ بیماری اور تکلیف ہر ذی روح کے حصے میں آ سکتی ہے لیکن یہ طرزِ کلام کسی زندہ شخص کے بارے میں پہلی بار سننے میں آ رہا ہے۔ اس ہمدردی کے بیانیے میں سے ” ہم دردی‘‘ کا عنصر 100 فیصد غائب ہے جب کہ شیروانی پہننے کی خواہش 100 فیصد غالب بلکہ ظاہر و باہر نظر آ رہی ہے۔بے رحمی کا یہ وولچر کلچر ملٹی ڈائمنشنل ہے۔ اگلے دن وٹس ایپ پر ایک کلپ کہیں سے آیا جس میں لاہوری مزاحیہ اداکار لوگوں کو لیموں کا ریٹ 650 روپے فی کلو بتا رہا تھا۔ گزشتہ حکمرانوں کے ارسطو نے، کان سے دھواں اور ناک سے شعلے برسانے والی پریس کانفرنس میں ملکی معیشت کا اُس مزاحیہ اداکار کی طرح ہی نقشہ کھینچا ہے۔ دوسری جانب، تین وزارتوں اور اداروں کے اعداد و شمار ایسے ارسطوئوں کو یوں بول بول کر ”چل جھوٹے‘‘ کہہ رہے ہیں‘ جس کی وجوہات یوں ہیں:پہلی وجہ: مالی سال 2019-2020 یعنی سرمایہ کاری کے سال کی پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر)۔ ٹیکس ریونیو میں 15 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ سال 2018 میں یہ ریونیو832 ارب روپے تھا۔ سال 2019 میں بڑھ کر 960 ارب روپے ہو گیا۔ درآمدات میں 3 ارب ڈالر کی کمی کے باوجود بھی یہ اضافہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ پاکستان معاشی خود انحصاری کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اسی عرصے میں ان لینڈ ریونیو میں 25 فی صد اضافہ ریکارڈ ہوا جب کہ پرائیویٹ بیرونی سرمایہ کاری میں 51 فی صد اضافہ اور کل بیرونی سرمایہ کاری میں 130 فی صد اضافہ ریکارڈ ہوا۔دوسری وجہ‘ سرکلر ڈیبٹ ہے‘ جسے اردوئے معلّیٰ میں گردشی قرضہ اور اردوئے محلہ میں گشتی قرضہ کہتے ہیں۔ جس کی وجہ منسٹری آف فارن افیئرز سے ہی پوچھی جانی چاہیے‘ جن کے خفیہ ترین دروازے ہر طرح کی مٹر گشت کرنے والے گشتی مسافروں کے لئے دن اور زیادہ تر رات میں کھلے رہتے ہیں۔ 2017-2018 میں یہ گردشی قرضہ 38 ارب روپے ماہانہ کے حساب سے اُوپر چڑھ رہا تھا۔ سال 2018-2019 میں اسے کیپ کر کے 26 ارب روپے ماہانہ تک نیچے لایا گیا۔ اس سہ ماہی میں یہ قرضہ مزید کم ہو کر 12 ارب روپے ماہانہ پر آ گیا ہے۔ اس منحوس قرضے کا ویشی یس سرکل انشاء اللہ جلد ہی ختم ہو جائے گا۔ یہ وہی قرضہ ہے جسے اتارنے کے نام پر مفرور سمدھی نے نواز حکومت کے پہلے ہفتے میں 480 ارب روپے حسبِ منشا کمپنیوں میں تقسیم کر دئیے تھے۔تیسری وجہ: تین خساروں میں کمی ہے۔ پہلی کمی، عمران خان کی حکومت نے پہلے بجٹ کی تکمیل سے پہلے ہی 30 ارب کرنٹ اکائونٹ خسارے میں 64 فی صد کمی کر دی ہے۔ دوسری، تجارتی خسارے میں یہی کمی 35 فی صد ریکارڈ کی گئی۔ تیسری، مالیاتی خسارے میں بھی 35 فی صد کمی آئی ہے۔ پچھلے ایک عشرے میں گزشتہ دونوں حکومتیں ایسے معاشی اعشاریے حاصل کرنے میں ناکام رہی تھیں۔ وہ بھی اتنی کم مدت کے اندر۔شہر اقتدار کی بہت بڑی خبر تو میرے پاس ہے۔ اگر نثر میں لکھی تو بے رحم کہلائوں گا‘ اس لیے چند دن صبر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ویسے سمجھنے والوں کے لئے یہ رباعی کافی اور شافی ہے: اب نہ طفلاں کو خبر ہے کسی دیوانے کی۔۔ اور نہ آواز کہ ”او چاک گریباں والے‘‘۔۔نہ کسی ہاتھ میں پتھّر نہ کسی ہاتھ میں پھول۔۔کر گئے کُوچ کہاں کوچۂ جاناں والے۔