تحریر: ممتاز ملک پیرس
چند روز قبل اردو ادب کےایک بہت بڑے لکھاری کی وفات پر دنیا بھر میں ان کے مداحین نے ان کےساتھ اپنی ملاقاتوں اور تصاویر کو سوشل سائیڈز پر سب کیساتھ بانٹا ۔ اس بات پر ہمارے کئی بزرگ لکھاریوں کو جانے کس بات پر اعتراضات کی سوجھی ۔ کسی نے نئے لکھنے والوں کو لالچی رائٹرز ، بونے رائٹرز اور فیس بک کی پیداوار کہہ کر خوب اپنا ظرف دکھایا۔ ایسی ہی ایک پوسٹ پر ہماری بھی نظر پڑی تو پوچھنا ہی پڑا کہ کیا آپ کا اشارہ ہماری جانب ہے سر . ہماری تو ان کے ساتھ کوئی تصویرنہیں ہے۔ ہاں ان کی آخری ملاقاتوں میں سے ہمارے ساتھ ہونے والی بھی وہ ملاقات شامل تھی . ہمارا تو ان سے ملنا ہی ہمارے لیئے ایک اعزاز کی بات تھی . آپ لوگ بھی تو اپنے ابتدائی دنوں میں کسی کو کام کے حوالے سے پسند کرتے ہوں گے .
ان سے ملنا چاہتے ہوں گے . ان کو دیکھنا چاہتے ہونگے تو اس کا ذکر بھی اس وقت کے میسّر ذرائع سے کرتے ہوں گے . اس میں کیا عیب ہے ؟ یہ آج کا زمانہ ہے یہاں آج کے انداز میں ہم سب اپنی خوشی کا، تجسّس کا اظہار کرتے ہیں . کیا یہ بری بات ہے؟؟کیا ساری دنیا میں ایسا ہی نہیں ہوتا؟؟جبکہ یہ سب وہی لکھاری ہیں کہ جب کسی فنکار یا لکھاری کی موت پر کوئی ان کا پُرسہ نہ دے تو بھی معاشرتی بے حسی کا رونا رو رو کر خوب صفحے کالے کرتے رہتے ہیں ۔ اور آج جب کسی کو یاد کیا جا رہا ہے تو اپنی ہی بات کی مخالفت کرتے ہوئے بھی صفحات کالے کرنے میں مصروف ہیں ۔ گویا یہ اپنے سیاہی کے لیئے کوئی نہ کوئی موضوع پیدا کر ہی لیتے ہیں ۔ یہ سوچے بنا کہ کسی دن وہ بھی پہلی بار سے گزرے تھے ۔
لیکن میں پھر بھی کہوں گی کہ جانے والا کوئی ایسا ویسا ہو تو کوئی کیا ذکر کریگا لیکن اگر جانے والا اتنا بڑا اپنے کام کا ماہر ہو تو ہر ایک اس کے نام سے کسی بھی حوالے سے جڑنا چاہے گا . یہ انسانی فطرت ہے جناب . ہاں جو لوگ اس میں جھوٹ کا تڑکہ لگاتے ہیں . انہیں شرم آنی چاہیئے.میری کیا جرات ہے جناب کہ میں آپ کی بات کو رد کروں . میں تو ایک.عام فطری رجحان کا ذکر کر رہی ہوں ۔
آپ کی بات سے سو فیصد متفق ہوں لیکن تصویر کا دوسرا رخ آپ.کے سامنے پیش کرنے کی جرات کر رہی ہوں . معذرت کیساتھ . جو لوگ جھوٹ ملاتے ہیں وہ قابل لعنت ہیں . جانے والا خود تو اپنی سچائی بیان نہیں کر سکتا لیکن دنیا میں رہنے والا اس پر جھوٹ باندھ کر اس کی روح کو تکلیف پہنچانے کا موجب ضرور بن رہا ہوتا ہے . اللہ ہمیں معاف فرمائے. دوسری جانب نئے لکھنے والے یا بقول آپ کے” لالچی رائیٹرز ” اگر یہ کہیں کہ آپ جیسے لوگ تعزیت کرنے والوں کی آڑ لیکر نئے آنے والوں سے اپنا حسد اور بغض نکال رہے ہیں یا جانے والوں کا نام لیکر اپنے نمبر بنا رہے ہیں .
تو اس میں کیا جھوٹ ہو گا ؟ کیونکہ ہمارے ملک میں جو آدمی کسی مقام پر خاص طور پر لکھاری کسی مقام پر پہنچ جائے تو وہ چاہتا ہے بس اب اس رستے کی طرف آنے والے ہر آدمی کو بے عزت کر کے رکھ دو کیونکہ آخری طُرّم خان وہی تھا جو پیدا ہو گیا . اس قدر تکبر اور اس قدر خود پسندی کی کوئی مثال میں نے اور دنیا میں کہیں نہیں دیکھی. خود کو خدا سمجھنے سے اچھا نہیں ہے کہ ہمارے بزرگ رائٹرز خود کو اچھا انسان بھی ثابت کریں اور آنے والوں کی رہنمائی کریں۔ ان کی حوصلہ افزائی کریں . ورنہ وقت تو انہیں آگے لے ہی آئے گا .
بہت بہت شکریہ ان چند بڑے دل والے سینئیرز کا، کہ سچ میں اگر آپ جیسے چند لوگ اس میدان میں ہمیشہ نہ ہوں تو ہر شخص اس میدان میں پہلا اور آخری ہی ہوتا . کسی کو اپنا پہلا دن یاد ہی نہیں ہوتا کہ وہ بھی اسی طرح ایک روز نیا تھا . بقول.ان لوگوں کے ”بونے” تھے.کسی نے ان کی رہنمائی کی تو وہ اس کے لیئے راہبر ہو کر اچھے لفظوں میں جی گیا لیکن جس نے اس کا راستہ روکا وہ یہ بھول گیا کہ راستے خدا بناتا ہے کسی انسان کی کیا اوقات ہے کہ وہ یا اس کا نام کسی کے لیئے راستہ بنے . جب تک کہ رب کائنات نے کامیابی یا نام اس کے مقدر میں لکھ نہ دیا ہو. یہ تو اللہ کی جانب سے ہمارے لیئے بہانے ہوتے ہیں .
جن لوگوں کے ذہنوں پر یہ بڑا پن سوار ہو جاتا ہے ان کے لیئے واقعی نہ تو کوئی دعا کرتا ہے اور نہ ہی انہیں کوئی اچھے لفظوں میں یاد کرتا ہے ۔ ہمارے لکھاری شاید اسی لیئے اپنے معاشروں میں کوئی مثبت تبدیلیاں لانے میں اکثر ہی ناکام ہوئے ہیں کیونکہ انکے اپنے قول اور فعل میں خوفناک تضادات موجود ہوتے ہیں ۔ وہ کہہ کچھ رہے ہوتے ہیں اور کر کچھ اور رہے ہوتے ہیں ۔ وہ اکثر اپنے آپ کو دنیا سے الگ کوئی چیز تصور کرنے لگتے ہیں ۔ تو پھر آپ کو یہ بات کہنے کا بھی کوئی حق نہیں ہے کہ دیکھو کیسا بے ضمیر معاشرہ ہے .
تحریر: ممتاز ملک پیرس