اسلام آباد(ویب ڈیسک)سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ملک چھوڑنے سے صاف انکارکردیا، کوئی ڈیل نہیں ہوگی، میرے پاس کھونے کوکچھ نہیں ہے، مولانا فضل الرحمن کوآزادی مارچ ملتوی کرنے کامشورہ بھی نہیں دوں گا۔اندرون خانہ پکنے والی کھچڑی کی تصدیق شیخ رشید بھی کرتے ہیں۔ وزیراعظم اور وزراء آئے روز اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ کوئی این آر او نہیں دیں گے مگر دیگر یوٹرنز کی طرح حکومت ایک اور پینترا بدلنے والی ہے۔انتہائی معتبرذرائع نے بتایا ہے کہ گزشتہ3روزمیں نوازشریف سے ملک کی اہم شخصیات کا 2بار رابطہ ہوا۔ نوازشریف کو پیغام دیا گیا کہ جیل سے رہائی کے بعد آپ کچھ عرصے کے لیے لندن چلے جائیں اور ہمیں کچھ وقت مل جائے ملک انتہائی نازک صورتحال سے گزر رہا ہے آپ کی تھوڑی سی مدد کے بعد ہم حالات نارمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ملاقات میں سب سے زیادہ کوشش مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کو ملتوی کرانے پر کی گئی۔نوازشریف نے واضح طور پر کہا کہ میں نے جو کھونا تھا کھو دیااب میرے پاس کھونے کوکچھ بھی نہیں لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میں ملک سے چلا جائوں تو مجھ سے بڑا منافق کوئی نہیں ہو گا اور نہ ہی میں مولانا فضل الرحمن کو آزادی مارچ ملتوی کرنے کا مشورہ دوں گا۔ ملاقات کرنے والوں نے بہت سارے راستے اورتجاویزنوازشریف کے سامنے رکھیں مگر انہوں نے واضح جواب دیا کہ ایسے وقت میں علاج سے زیادہ ضروری ملک کی مجموعی صورتحال ہے جس کے پیش نظر میں کسی طور پر بھی ملک نہیں چھوڑ سکتا ۔ حکومت کسی کو این آر او نہ دینے کا دعویٰ کرتی رہی مگر ایک یوٹرن مارکرفرٹیلائزر ،سیمنٹ دیگرصنعتوں کے228ارب واجب الادارقم صدارتی آرڈیننس کے ذریعے معاف کردی۔مصدقہ ذرائع کاکہناہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نواز شریف اور آصف علی زرداری کے معاملے پر بھی جلدیوٹرن لینے والی ہے ۔اس حوالے سے گزشتہ چند ماہ میں نواز شریف سے ’’بعض اہم لوگ ‘‘ مسلسل رابطے اور ملاقات کررہے ہیں اور کئی تجاویز ان کے سامنے رکھی گئی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف اپنی ذات کی حدتک کچھ عرصے کے لیے بیرون ملک جانے پر رضامند ہو گئے تھے مگر وہ اپنی بیٹی مریم نواز کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے کسی کی بات سننے کو تیار نہیں ہیں۔نواز شریف کے اس انکار کے بعد ان کو دبائو میں لانے کے لیے مریم نواز کو ایک بار پھر گرفتار کیا گیا اور گرفتاری کے بعد نواز شریف سے دوبارہ رابطے کیے گئے ،گزشتہ3روز میں کئی اہم شخصیات کوٹ لکھپت جیل میں ان سے رابطہ کرچکی ہیں۔ ’’دبائو کے ساتھ ‘‘میاں نوازشریف کے قریبی عزیزوں ،دوستوں اور مختلف کاروباروں میں نواز شریف کے شراکت داروں کو بھی اس سارے عمل میں شامل کیا گیا ہے مگر نواز شریف کسی بات پر تیار نہیں ہو رہے ہیں۔حکمران طبقہ ایک طرف این آر او نہ دینے کی باتیں کررہا ہے مگر ’’اہم لوگوں ‘‘ کے ذریعے حکومت خود چاہتی ہے کہ فیس سیفنگ کے لیے نواز شریف کچھ لے دے کر بیرون ملک چلے جائیں ۔ ان ساری باتوں کی تصدیق وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کے ذرائع ابلاغ سے مختلف انٹرویوز سے بھی ہوتی ہے جس میں وہ یہ بات کہہ رہے ہیں کہ آصف علی زرداری سمجھدار آدمی ہیں وہ اپنے دوستوں کے ذریعے لے دے کر درمیانی راستہ نکال رہے ہیں جبکہ نواز شریف مر جائے گا مگر پیسے نہیں دے گا۔شیخ صاحب کا یہ جملہ ایک طرف حکومتی بے بسی کی نشاندہی کر رہا ہے جبکہ دوسری طرف اس سے عیاں ہوتا ہے کہ حکومت نواز شریف سے ڈیل کر کے اپنے لیے ممکنہ خطرات کے آگے بند باندھنا چاہتی ہے۔