لاہور;پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ تمام جمہوری جماعتوں سے نئے میثاق جمہوریت پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں، پارلیمنٹ میں آنے والے سیاسی قائدین بنیادی اصولوں پر سمجھوتہ نہ کریں۔ان کا مزیدکہنا ہے کہ جو ظلم و زیادتی میرے والد نے نوازشریف
نامور تجزیہ نگار سلمان غنی اپنی تحریر میں لکھتے ہیں۔۔۔۔۔ کے دور میں سہی، نہیں چاہتا وہی سب شریف خاندان کے ساتھ ہو۔چیئرمین پی پی پی نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ عوام پیپلزپارٹی کا نظریہ قبول کرتے ہیں، اس کا نتیجہ 25 جولائی کو سامنے آئے گا،میری توجہ عوام کے مسائل اور پارٹی منشور پر رہی ہے، میرا پہلا الیکشن ہے، انتخابی مہم بھی چلارہا ہوں، میں عوام میں بی بی شہید کا مشن لے کر نکلا ہوں۔بلاول کا مزید کہنا ہے کہ ایک الیکشن کی بات نہیں، یہ مشن جاری رہے گا، محنت سے نہیں ڈرتا، نتائج کے لیے محنت ضروری ہے، گالم گلوچ کی سیاست ، گالم گلوچ بریگیڈ کی سیاست پاکستان برداشت نہیں کرسکتا۔ان کا کہنا ہے کہ گالم گلوچ اور نفرت کی سیاست کو مرکزی دھارے میں لائیں گے تو نوجوان سمجھیں گے کہ اسی طرح کرنا ہے، نوجوانوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ مثبت کردار ادا کریں۔چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ الیکشن کے بعد وزیراعظم کا فیصلہ ہوگا، پیپلزپارٹی کی حکومتوں نے ریاست اور معیشت کو مستحکم کیا، پی پی پی ملک کی وہ سیاسی جماعت ہے جو تمام مسائل کا سامنا کرسکتی ہے۔بلاول بھٹو زرداری کا کہنا
ہے کہ سندھ میں سیاسی اتحاد حقیقی خطرہ ہوتا تو سامنے آکر مقابلہ کرتا، سندھ میں سیاسی اتحاد بیک ڈور کے ذریعے کام نہیں کرتا، اب بھی کچھ کٹھ پتلی جماعتیں 2018 ء کی آئی جے آئی کا حصہ ہیں۔چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کی دعوت پر مریم اورنگزیب کا ویلکم، کیا جمہوریت کے سائے تلے سیاسی جماعتیں ایک ہو پائیں گی؟ بلاول کے بیان سے ہلچل شروع ہو گئی۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے نئے میثاقِ جمہوریت کا اشارہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ میثاق جمہوریت کیلئے وسیع تر اتفاق رائے ناگزیر ہے، قومی مفاد میں تمام پارلیمانی جماعتوں کے درمیان مکالمہ ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ صرف پی پی اور ن لیگ کا مسئلہ نہیں بلکہ سب کا ہے۔ادھر بلاول بھٹو کے بیان پر ن لیگ کا جواب بھی آ گیا ہے اور ان کی تجویز کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ جمہوری استحکام کیلئے ہر طرح کے ڈائیلاگ پر تیار ہیں، ہمارا مقصد شفاف الیکشن یقینی بنانا ہے۔ مریم اورنگزیب کا یہ بھی کہنا تھا کہ چاہتے ہیں الیکشن کی شفافیت پر سوال نہ اٹھے۔یاد رہے کہ میثاق جمہوریت ن لیگ اور
پیپلز پارٹی کے درمیان پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کیلئے ہونا والا معاہدہ تھا جس پر 14 مئی 2006ء کو لندن میں دستخط کیے گئے تھے۔آٹھ صفحات پر مشتمل اس معاہدے میں سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت کی جانب سے متعارف کرائی گئی آئینی ترامیم کے بارے میں دونوں جماعتوں کے مشترکہ نکتہ نظر کو بیان کیا گیا۔لہٰذا انتخابات سے ایک ہفتہ قبل ملک کی 2 بڑی سیاسی پارٹیوں کی جانب سے میثاق جمہوریت کا سگنل یہ ظاہر کر رہا ہے کہ حالات نے انہیں یہاں تک پہنچا دیا ہے کہ شدید تر تحفظات کے باوجود وہ مل بیٹھنے اور سر جوڑنے پر تیار ہیں۔ لہٰذا دیکھنا پڑے گاکہ کیا ایسا ممکن ہے ۔ وہ کونسی وجوہا ت اور تحفظات ہیں جن پر مسلم لیگ ن کے حوالے سے ڈیڈ لاک کی بات کرنے والی پیپلز پارٹی ڈاائیلاگ پر تیار ہوئی اور انتخابات کے نتائج سے قبل ہی اپنے ارادے ظاہر کر دئیے اور میثاق جمہوریت کی ضرورت محسوس کی جانے لگی۔ ایک چیز تو واضح نظر آ رہی ہے کہ ملک میں انتخابات کی آزادانہ ، غیر جانبدارانہ حیثیت پر بہت سے سوالات کھڑے ہوئے ہیں۔ پہلے پہل مسلم لیگ ن بولی کہ ہمیں دیوار سے لگایا جا رہاہے پھر پیپلزپارٹی بولی اور پھر ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی بولے کہ ہمیں
لیول پلے فیلڈ حاصل نہیں اور اسی طرح اسفند یار ولی ، سراج الحق اور دیگر بھی اسی ٹون میں بولتے نظر آئےاور سب کے اندازے سے یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کے بعض ادارے غیر اعلانیہ طور پر تحریک انصاف کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان کے لیے فضا ساز گار بنائی گئی ۔ ان کے لیے الیکٹ ایبلر کا بندوبست کیا گی اور مخالفین پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا رہا اور یہی وہ خدشات ، خطرات ہیں جو آزادانہ ، منصفانہ انتخابات کے حوالے سے طاری ہیں۔ اس ساری صورتحال میں یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ وہ کیا حالات ہیں جن میں الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔ وہ کون سے سخت گیر عناصر ہیں جن کی فعالیت سے دو بڑی حریف جماعتیں دوبارہ اکھٹی ہونے جا رہی ہیں۔ 25 جولائی کے بعد کا مینڈیٹ ابھی سے الیکشن پر ایک جیسی نقطع نظر کی حامل سیاسی جماعتوں کو جوڑ رہا ہے۔ اس سے آنے والی حکومت کی مشکلات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ دوسری اہم بات ان جماعتوں کے حوالے سے ہے جو اس انتخابی ماحول سے مطمئن اور خاموشی سے اپنا کام کر رہی ہیں۔ کیا ان جماعتوں کے لیے یہ انتخابی ماحول سازگار ہے یہ وہ بھی پردے کے پیچھے پہلے سے ہی مل بیٹھی ہیں۔ کیونکہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے کم ہوتے فاصلوں کے ساتھ ساتھ ایک متوازی ممکنہ اتحاد بھی بنتا نظر آ رہا ہے مگر اس اقتدار کے حلیف کون ہوں گے ۔ کیا کراچی سے پاک سر زمین پارٹی ، بلوچستان سے بی اے پی کے جیتنے والے لوگ ، پنجاب سے آزاد اور جیپ کے مسافر تحریک انصاف کے کیمپ میں کھڑے ہونگے؟۔