احتساب کے بجائے انتقام کا شہرہ ہے اور انتقام کی یہ آواز میاں نواز شریف کے اہل خانہ کی جانب سے بلند ہو رہی ہے، ان کا یہ کہنا ہے کہ ہمارے خلاف اگرچہ کچھ بھی ثابت نہیں کیا جا سکا لیکن اب احتساب کے نام پر انتقام شروع کر دیا گیا ہے۔
اس خود ساختہ انتقام کا آغاز کسی عام آدمی سے نہیں بلکہ سابق وزیراعظم کے داماد کیپٹن صفدر سے شروع کیا گیا ہے، وہ لندن سے اپنی اہلیہ کے ہمراہ احتساب عدالت میں پیش ہونے کے لیے اسلام آباد پہنچے ہی تھے کہ رات گئے احتسابی نمایندوں نے ان کو ائر پورٹ سے ہی گرفتار کر لیا اور ان کی اہلیہ محترمہ مریم نواز ائر پورٹ سے گھر چلی گئیں حالانکہ ان کے خلاف بھی احتساب عدالت میں یہی کیس چل رہا ہے جو کہ ان کے والد بھائیوں اور شوہر کے خلاف ہے لیکن وہ سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی ہیں اس لیے ان کا بوجھ برداشت کرنا بھی ممکن نہیں اور ہزارے کے اعوان کیپٹن صفدر کی گرفتاری ان کے لیے آسان تھی جو کہ بعد میں مشروط ضمانت میں بدل گئی ۔
احتساب کا یہ سلسلہ گزشتہ کئی حکومتوں سے جاری ہے انسداد رشوت ستانی اور وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے اپنے اپنے احتسابی کمیشن بھی یہ کام کرتے رہے لیکن ان کی کارکردگی افسوسناک ہی رہی ۔ احتساب کا زور شور سے عمل میاں نواز شریف نے ہی شروع کیا تھا انھوں نے جنرل مشرف کا شکار بننے سے پہلے احتساب بیورو کے نام سے ایک ادارہ بنایا جس کے سربراہ سیف الرحمن تھے سیف صاحب نے بڑی محنت اور جانفشانی سے بیرون ملک پاکستان سے لوٹی گئی دولت کا سراغ لگایا جن میں سیاستدانوں کے علاوہ بڑے افسروں اور اشرافیہ کی بیرون ملک جائیدادیں اور بھاری بھرکم بینک اکاؤنٹ بھی شامل تھے۔ اس وقت یہ باتیں سن کر بڑی حیرانی ہوتی تھی کہ سیف الرحمن نے اتنا مشکل کام اتنی آسانی سے کیسے کر لیا
سیل صرف اور صرف میاں صاحب کے مخالفین کے لیے ہی تھا اور اپنوں کے بارے میں تحقیقات کرتے ہوئے اس سیل کے پَر جلتے تھے ۔ احتساب کے نام پر ان لوگوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا جو کہ اپوزیشن میں تھے جب کہ ساتھیوں کو بھی ڈرانے اور ان کی وفاداریاں شامل رکھنے کے لیے ان کی بھی فائلیں مرتب کی گئیں لیکن صرف ڈرانے کی حد تک اس سے آگے کچھ نہیں جو کہ متوازن احتساب کے لیے سب سے ضروری تھا لیکن سیاسی حکومت اپنے سیاسی ساتھیوں کی ناراضگی کا خطرہ مول نہیں لے سکتی اس لیے خاموشی کو ہی بہتر سمجھا گیا۔
اب ایک بار پھر پانامہ پیپرز کے بعد پاکستان میں احتساب کا عمل شروع ہوا ہے اور اس بار اس کا براہ راست نشانہ میاں نواز شریف اور ان کے اہل خانہ ہیں اور عوام اس احتسابی عمل کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں پہلی دفعہ بڑے لوگوں پر ان کی حکومت میں ہی ہاتھ پڑ گیا ہے حالانکہ پہلے تو اشرافیہ طبقے سے تعلق رکھنے والوں پر ہاتھ ڈالنا تو دور کی بات ان کی طرف میلی نظر سے دیکھنا بھی مشکل تھا۔ احتساب کے محکمے کے سربراہ نے بڑی چوں چراں کی لیکن عدالت کے حکم کے سامنے اس کی ایک نہ چلی اور مقدمے بناتے ہی بنی۔ ملک میں احتساب کی مضبوط روایت ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کو عوام کی جانب سے پذیرائی مل رہی ہے کیونکہ عوام ابھی تک صرف اپنے آپ کو ہی احتساب کے لیے پیش کرتے رہے اور بڑے لوگ اس سے محفوظ تھے لیکن اب لگتا ہے کہ اس احتسابی عمل سے ایک ایسی روایت پڑنے والی ہے جس کو آنے والے حکمران بھی آگے بڑھانے پر مجبور ہوں گے۔
اگر میاں نواز شریف کی اپنی حکومت کی موجودگی میں ہی ان کا احتساب ہو سکتا ہے تو عوام یہ بات بھی کرنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ احتسابی عمل یکساں طور پر ہر پارٹی اور ہر طبقے پر لاگو ہونا چاہیے تا کہ اس کی شفافیت کے بارے میں کوئی انگلی نہ اُٹھائی جا سکے ۔ جیسے یہ عمل شروع ہوا ہے اسی طرح آنے والے حکمران بھی احتسابی عمل سے گزریں گے اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا اور اس دوران بدعنوان لوگوں کو کان ہو جائیں گے کہ بدعنوانی سے ہاتھ روک لو کہ احتساب بھی ہو سکتا ہے۔ یہ عمل کوئی معمولی بات نہیں پاکستان میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا کہ سماجی اور سیاسی رتبے والے لوگوں پر ہاتھ ڈالا گیا ہے اس سے نادار لوگوں کے دلوں کو بڑا سکون ملا ہے جن کی غربت کی اصل وجہ اس اشرافی طبقے کی امارت ہے اور اپنے جیسے انسانوں کا حق مار کر دولت کے انباروں میں اضافہ کیا گیا ہے۔
مجھے ایک بار پھر وہ واقعہ یاد آرہا ہے کہ حضرت عمرؓ کے دور حکومت میں ان کی سلطنت کے تمام حاکموں کو حج کے موقع پر لازماً آنے کا حکم تھا تاکہ حج کے موقع پر دور دراز سے آئے ہوئے مسلمانوں میں سے اگر کسی کو اپنے حاکم سے کوئی شکایت ہے تو اس کا فوری ازالہ کیا جائے۔ایسے ہی ایک موقع پر ایک گورنر کے بیٹے کی ایک عام آدمی نے شکایت کی اور وہ تحقیقات میں قصور وار پایا گیا تو اس گورنر کے بیٹے کے لیے بھی وہی سزا تجویز کی گئی جو کہ اس کے جرم کے مطابق کسی بھی عام انسان کے لیے مقرر تھی اور حضرت عمر ؓ نے اس موقع پر شکایت کندہ سے کہا کہ مارو اس بڑے باپ کے بیٹے کو اسی طرح جس طرح اس نے تمہیں مارا تھا ۔ یہ تو وہ انصاف تھا جس کی صرف مثالیں ہی دی جاسکتی ہیں لیکن امید رکھنی چاہیے کہ بڑے باپوں کے بڑے بیٹوں کا اب احتساب شروع ہو گیا ہے، توقع یہ ہے کہ کوئی بھی بڑا یا چھوٹا اس احتسابی عمل سے باہر نہیں رہے گا بس اس کے شروع ہونے اور پایہ تکمیل تک پہنچنے کا انتظار ہے۔
تحریر:عبدالقادرحسن، بشکریہ ایکسپریس نیوز