لاہور (ویب ڈیسک) اپوزیشن حکومت کے خلاف پارلیمنٹ میں قرارداد لانے پر متفق نہ ہو سکی۔ میڈیار پورٹس کے مطابق جے یو آئی ایف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور پیپلز پارٹی کے چئیرمین آصف علی زرداری کے مابین ملاقات ہوئی تھی جس میں طے کیا گیا تھا کہ حکومت کے خلاف قرارداد پارلیمنٹ میں پیش
کی جائے گی۔ کہا گیا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن اے پی سی کی سربراہی کریں گے تاہم اب بتایا گیا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف متفقہ قرارداد لانے پر متفق نہیں ہو سکی۔ قرارداد کو پارلیمنٹ کے بجائے اے پی سی میں پیش کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔اے پی سے میں ملک گیر احتجاج کی تجویز بھی پیش کی جائے گی۔ خیال رہے پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر مملکت آصف زرداری نے کہا تھا کہہ موجودہ حکومت کی نااہلی جلد ہی سامنے آگئی ہے،تمام سیاسی جماعتوں کو ملکر قرارداد لانی ہوگی کہ موجودہ حکومت ملک نہیں چلا سکتی،مشرف نے امریکا سے امداد لیکر ملک چلایا،ہمارا دور شروع ہوا توامداد بند ہوئی،ہم نے مشکل حالات میں حکومت سنبھالی تھی۔ آصف زرداری نے کہا کہ ہمیں ملک کی سمت کا تعین کرنا ہے۔اب ملک کے لیے اصولی فیصلوں کا وقت آگیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم اپنے دور میں مستقبل کی پالیسیاں لیکر آئیں تھے لیکن میاں نوازشریف نے وہ بند کردی ہیں۔ اب بھی یہ پالیسیاں چل سکتی تھیں۔لیکن اس وقت سلیکٹڈ وزیراعظم ہے ہم کیا کرسکتے ہیں؟ ایسا وزیراعظم جو ہیلی کاپٹر میں گھر جاتا اور آتا ہے۔ ایسا وزیراعظم جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم کا گھر ریگولرائز کردیں۔
انہوں نے ایک سوال پر کہا کہ میں جو آج کیس بھگت رہا ہوں اس کی نیٹ سے ایف آئی آر دیکھ لیں وہ میں میاں صاحب کے دور کا بنایا ہوا نیب کاکیس بھگت رہا ہوں۔ شریک چیئرمین پیپلزپارٹی آصف زرداری نے کہا کہ این آر او سیاسی مخالفین کے ڈھگوسلے ہیں۔یہ صرف ان کی پبلسٹی کا ذریعہ ہے۔مجھے تو این آر او سے کوئی فائدہ نہیں ہوا میرے خلاف توسارے کیس دوبارہ کھل گئے ہیں۔ این آر او کا کسی اور کو فائدہ ہوا تو مجھے علم نہیں۔ دوسری جانب ایک خبر کے مطابق دوسری عام انتخابات 2018ء کےانتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی نمایاں کامیابی کے بعد سیاسی جماعتوں نے پاکستان تحریک انصاف کے خلاف اپوزیشن اتحاد تشکیل دیتے ہوئے انتخابات کو مسترد کیا تھا اور موقف اختیار کیا تھا کہ انتخابات میں ہمارا مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے لہٰذا ہم ان انتخابات کو نہیں مانتے۔ آج صبح اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا 15 واں اجلاس ہوا جس میں ارکاناسمبلی نے حلف لیا۔ ارکان اسمبلی کی حلف برداری کے بعد 15 اگست کو اسپیکراور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے لیے انتخاب ہو گا جس کے بعد وزیراعظم کا انتخاب کیا جائے گا۔ قومی اخبار میں شائع ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم کے انتخاب کے بعد اپوزیشن اتحاد ختم ہونے کا امکان ہے کیونکہ وزیر اعظم کی حلف برداری کی تقریب کے بعد اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتوں کے پاس احتجاج کا کوئی جواز نہیں ہو گا۔ اپوزیشن اتحاد میں پہلے سے ہی کئی اختلافات پیدا ہو چکے ہیں،اپوزیشن اتحاد میں شامل بعض سیاسی رہنماؤں کی جانب سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کی گئی جس سے اس اپوزیشن اتحاد کو کافی نقصان پہنچا۔ ایک رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اپوزیشن اتحاد کے اسی آپسی اختلافات کی وجہ سے الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر احتجاج میں شرکت کرنے نہیں آئے ۔