پٹنہ : علمی مجلس کے زیر اہتمام بہار اردو اکیڈمی کے سمینار ہال میں گزشتہ شام بدر محمدی کی تصنیف ”امعان نظر” کی رسم اجرا اکیڈمی کے سکریٹری مشتاق احمد نوری کے ہاتھ سے عمل میں آئی۔پروگرام کی صدارت پروفیسر علیم اللہ حالی نے کی۔ نظامت کا فریضہ فرد الحسن فرد نے انجام دیا۔
مہمانان خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر اسرائیل رضا اور ڈاکٹر عبد الصمد جبکہ مہمانان اعزازی کی حیثیت سے ڈاکٹر ممتاز احمد خاں، ڈاکٹر منظر اعجاز اور نوشاد مومن شریک محفل تھے۔پروگرام کا آغاز مولانا آصف رضا کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ علمی مجلس کے جنرل سیکرٹری پرویز عالم نے گلدستہ پیش کر کے مہمانان کا استقال کیا۔
کلیدی خطبہ دیتے ہوئے خورشید اکبر نے بدر محمدی کی تصنیف امعان نظر پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ اگر مصنف نے رسائل و جرائد کے خصوصی شماروں کے بجائے تخلیقی فن پاروں پر اتنی محنت کی ہوتی تو اس کے دور رس نتائج سامنے آتے۔کہکشاں توحید، کامران غنی صبا، رضوانہ پروین اور عفت ناز نے بدر محمدی کی تصنیف ”امعان نظر” پر اظہار خیال کرتے ہوئے کتاب کی خصوصیات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
امان ذخیروی اور ظفر صدیقی نے امعان نظر پر منظوم تاثرات پیش کئے۔سہ ماہی مژگاں کے مدیر نوشان مومن نے اس بات پر مسرت کا اظہار کیا کہ سر زمین بہار علم و ادب کے حوالے سے دوسری ریاستوں سے زیادہ فعال ہے۔انہوں نے کہا کہ امعان نظر اس لحاظ سے تاریخی اہمیت کی حامل ہے کہ رسائل و جرائد کے خصوصی شماروں پر مشتمل تبصروں کا یہ پہلا مجموعہ ہے۔امعان نظر پر اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر منظر اعجاز نے کہا کہ بدر محمدی کی یہ کتاب تحقیقی کام کرنے والوں کے لئے بہت ہی مفید ثابت ہوگی۔
ڈاکٹر ممتاز احمد خاں نے کہا کہ بدر محمدی نے سبھی تبصرے بہت ہی ایمانداری اور دیانتداری سے قلم بند کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عموماً تبصروں کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی ہے حالانکہ تبصرہ ادب کی ایک اہم صنف ہے۔ پروفیسر عبدالصمد نے کہا کہ بدر محمدی اس لئے بھی قابل مبارکباد اور لائق ستائش ہیں کہ شہر سے دور رہنے اور وسائل کی کمی کے باجود وہ ادب کے خدمت انجام دے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بدر محمدی کی اس پہلی نثری کاوش کی پذیرائی کی جانی چاہئے۔
پروفیسر اسرائیل رضانے علمی مجلس ، بہار کے علمی و ادبی کارناموں کی ستائش کی اور کتاب کی رسم اجرا پر مصنف اور علمی مجلس بہار کو مبارکباد پیش کی۔مشتاق احمد نوری نے امعان نظر پر ہوئی گفتگو پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ تخلیق کار کو مشورہ دینے کے بجائے اسے آزاد چھوڑ دینا چاہئے۔ انہوں نے کہا بدر محمدی کے تبصرے اس قابل ہیں کہ انہیں پڑھا جائے۔ علیم اللہ حالی نے بھی بدر محمدی کی تبصروں کی ستائش کی۔
انہوں نے کہا کہ بدر محمدی کے تبصروں کا ایک خاص رنگ ہے۔ علیم اللہ حالی نے کہا تبصرے تنقید کا زینہ ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ بدر محمدی تنقید کی میدان میں بھی اپنی موجودگی کا احساس کرانے میں کامیابی حاصل کریں گے۔
پرویز عالم کے شکریہ کے ساتھ تقریب کا اختتام ہوا۔ پروگرام میں ڈاکٹر آصف سلیم، قوس صدیقی، ناشاد اورنگ آبادی، احسن راشد، اشرف استھانوی، ڈاکٹر زرنگار یاسمین، سید فرحان غنی، انوار الحسن وسطوی، منیر سیفی، ہمایوں اشرف، خورشید کاکوی، اسرار جامعی، انوار الہدی، شمیم حاجی پوری، پرویز انجم،افتخار عاکف، معین کوثر، عطا عابدی سمیت کثیر تعداد میں باذوق سامعین موجود تھے۔