پٹنہ : بہار اردو اکادمی کے سمینار ہال میں حسب اعلان ایک شاندار اور تاریخ ساز مشاعرے کا انعقاد ہوا۔ جس میں شہر کے نامور شعرائے کرام اور کثیر تعداد میں ارباب ذوق شریک ہوئے اور اکیڈمی کی حالیہ تشکیل نو کے بعد ہونے والی اس پہلی باوقار شعری تقریب کے انعقاد پر مسرت اور طمانیت کا اظہار کیا۔
اس موقع پر اکیڈمی کے سکریٹری مشتاق احمد نوری نے اپنے استقبالیہ خطاب میں معزز شعرائے کرام اور جملہ سامعین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کی خواہش تھی کہ سر زمین عظیم آباد میں جتنے بھی شعرائے کرام ہیں، ان سب کو مشاعرے میں شامل کیا جائے ، لیکن ایک ساتھ اتنے سارے شعرائے کرام سے مشاعرہ پڑھوانا بہت مشکل ہے، لہٰذا مشاعرے کی اس پہلی قسط میں 20 شعرائے کرام ہی شریک ہوسکے ہیں، نائب صدر اکادمی جناب سلطان اختر کی صدارت میں یہ مشاعرہ ہو رہا ہے۔
اس نوعیت کے مشاعرے کی دوسری قسط ان شاء اللہ3اکتوبر کو جناب شفیع مشہدی چیئر مین اردو مشاورتی کمیٹی کی صدارت میں ہوگی اور تیسرا مشاعرہ اکادمی کے نائب صدر جناب اعجاز علی ارشد کی صدارت میں منعقد کیا جائے گا۔ اس کی تاریخ کا اعلان بھی جلد ہی کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان تینوں مشاعروں کی ویڈیو رکارڈنگ کی جائے گی اور اسے یادگار کے طور پر محفوظ کر لیا جائے گا۔اس مشاعرے کا یہ سلسلہ صرف عظیم آباد تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ بہار کے ہر ضلع میں وہاں کے مقامی شعرا پر مشتمل مشاعرہ کیا جائے گا۔
اس طرح مشاعرے کا سلسلہ وار انعقاد بہار کے ہر ضلع ہیڈ کوارٹر میں ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اکادمی کے مزید ثقافتی اور علمی پروگرام کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ اکادمی کی مجلس عاملہ کی نشست ہونے کے بعد دیگر پروگرام کے سلسلہ میں بھی پیش رفت کی جائے گی۔عظیم آباد کی تاریخ میں مقامی مشاعریکے طور پر اس مشاعرے کو یاد رکھا جائے گا جس میں نوجوان شعرا سے لے کر بزرگ شعرا تک کی نمائندگی موجود تھی۔
اکادمی کے نائب صدر اور غزل کی آبرو کہے جانے والے سلطان اختر نے مشاعرے کی صدارت فرمائی اور نظامت کے فرائض بنفس نفیس خود مشتاق احمد نوری نے انجام دئیے۔ مشاعرے کا آغاز آل انڈیا ریڈیو کے پروگرام اکزیکیوٹیو شنکر کیموری کے خوبصورت حمدیہ کلام سے ہوا، جسے لوگوں نے کافی سراہا۔ اس مشاعرے میں جن شعرائے کرام نے شرکت کی ان کے اسمائے گرامی اس طرح ہیں۔ جناب سلطان اختر، پروفیسر علیم اللہ حالی، ظہیر صدیقی، ارمان نجمی، عالم خورشید، ناشاد اورنگ آبادی، قوس صدیقی، خورشید اکبر، قاسم خورشید، عابد نقوی، خالد عبادی، پریم کرن، حسن نواب حسن، شنکر کیموری، ظہیر انور، ندیم جعفری، اثر فریدی، تحسین روزی اور سنجے کمار کندن۔
مشاعرہ میں پیش کئے گئے کلام کا منتخب حصہ پیش خدمت ہے:
اس نے جب چاک کیا وجد میں پیراہنِ جاں میں بھی نذر جنوں اپنا گریبان کیا (سلطان اختر)
سارے اونچے گھر ہوا کی زد میں تھے میرا ملبہ تھا جو مستحکم رہا (علیم اللہ حالی)
مجھے پتہ ہی نہیں میرے لمس میں کیا ہے کہ میرے ہاتھ میں آتے ہی بولتی ہے کتاب (ارمان نجمی)
جذبات نے تہذیب نمائش نہیں سیکھی شاداب رہا گوشۂ گمنام ہمارا (خورشید اکبر)
اپنے اجداد کی تہذیب جو اپنائو گے تب کہیں جا کے زمانے کو جھکا پائو گے (ناشاد اورنگ آبادی)
جب وفاکے نام پر وہ آسماں ہو جائے گا کاروبارِ شوق میں اک دن زیاں ہو جائے گا (قاسم خورشید)
بجلیوں کے قمقمے آنکھوں کو اب بھاتے نہیں طاق پر جلتے دئے کی روشنی اچھی لگی (شنکر کیموری)
وہ کام آتا ہے اچھے برے میں لوگوں کے مگرمجھی سے وہ اکثر خلاف رہتا ہے (حسن نواب حسن)
دھواں دھواں سا ہے ہر سو یہاں پہ کیوں عابد جلی ہے کیا کوئی بستی چنائو سے پہلے (عابد نقوی)
لوگ رہتے ہیں محافظ سے بھی سہمے سہمے اس کے چہرے پہ بھی جیسے کوئی چہرا ٹھہرا (ندیم جعفری)
سراپنا کاٹ کے قدموں میں اس کے رکھ دیجئے کہ یاراتنی سی زحمت بھی کر نہیں سکتا (خالد عبادی)
ہم تمہارے ہیں یہ کہیں کیسے اور کہنے سے فائدہ کیا ہے (اثر فریدی)
وہ تو جا کے شہر کی رنگینیوں میں کھو گیا میں یہاں بس دال روٹی میں بسر کرتی رہی (تحسین روزی)
یہ کوئی خوف ہے یا عشق کا تقاضا ہے اسے قریب جو پائوں تو فاصلہ چاہوں (ظہیر انور)
تاعمر کام دے گا اجالا سمیٹ لے روشن میں جتنی دیر تری رہ گزر میں ہوں (پریم کرن)
مشتاق احمد نوری کے اظہار تشکر کے ساتھ مشاعرے کااختتام ہوا۔