فنکار کو قوم کا ورثہ تصور کیا جاتا ہے مگر افسوس کہ ہمارے ملک میں فنکاروں کی کوئی قدر نہیں۔ یہاں زندگی کا آدھا حصہ تو فنکار کو اپنا فن منوانے میں لگ جاتا ہے او ر اس کے دوران اس کو زندگی کے کتنے نشیب و فراز سے گزرنا پڑتا ہے۔
دن رات کی محنت سے بنایا ہو نام تو لوگوں کی زبان پر رہ جاتا ہے مگر اس کی خدمات کو جلد ہی فراموش کر دیا جاتا ہے، فنکار کو اس کے عروج کے دنوں میں سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے اور اس کا دور ختم ہوتے ہی اس کی خدمات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اسٹیج اداکار ببو برال، مستانہ کی طرح ماضی کے پی ٹی وی کے مشہور ڈراما عینک والا جن میں بل بتوڑی کا مقبول کردار ادا کرنے والی نصرت آرا طویل علالت کے بعد اپنے حالق حقیقی سے جا ملیں۔ سرسٹھ سالہ نصرت آرا نے اپنی ساری زندگی بل بتوڑی کے کردار میں ہی کام کیا اور تھیٹرز ڈراموں میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ نصرت آرا المعروف بل بتوڑی جلد کی بیماری کے علاوہ ایک سال سے فالج کے عارضے میں مبتلا تھیں۔سب کی دل پسند بل بتوڑی کرائے کے ایک کمرے میں رہائش پذیر تھیں جس کے لئے وہ ماہانہ چھ ہزار روپے ادا کرتی تھیں۔ مختلف ٹی وی چینلز سے بات کرتے ہوئے نصرت آرا نے بتایا کہ وہ کھانا کھانے کے لئے داتا دربار جاتی ہیں اور بڑے گہرے رنج کے ساتھ اس بات کا اظہار کیا کہ میرے اچھے دور میں مجھے بڑے بڑے سیاستدانوں نے پرفارمنس کے لیے بلایا لیکن مشکل وقت میں مجھے کسی نے سہارا نہیں دیا۔ بیماری اور کسمپرسی کی حالت میں نصرت آرا نے در در کی خاک چھانی مگر مدد کی منتظر بل بتوڑی کسی مسیحا کی کرم نوازی سے محروم ہی رہی اور ساتھ دیا تو بس غربت اور بیماری نے۔ وہ نصرت آرا جس نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ پاکستان کے لوگوں کے نام کر دیا اور ان کوں ہنساتے ہوئے اپنی زندی گزار دی ا س کے آنسو پونچنے کوئی نہیں آیا۔ سڑکوں، پلوں اور میٹرو اورنج لائن ٹرین جیسے منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کرنے والی حکومت ملکی ثقافت اور فن پر خرچ کرنے سے گریزاں ہے۔ فنکاروں کے زوال کے وقت میں ان کی مد د کے لئے خکومت کی جانب سے کوئی انتظامات ہی نہیںکیے گئے۔ ایک لمبے عرصے تک ملک کی خدمت کرنے اور فن کی دنیا میں اپنا لوہا منوانے والے فنکار کسمپرسی کی حالت میں کسی مسیحا کے منتظر گمنامی کی زندگی گزارتے اس جہان فانی سے کوچ کر جاتے ہیں۔