پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ چینی و گندم بحران کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان کے استعفے کے مطالبہ ان کے ہی معیار کے مطابق ہے۔
نجی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ‘مجھے افسوس ہے کہ جب پوری دنیا کی توجہ کورونا وائرس کی طرف ہے ہمارے ملک میں اس طرح کا اسکینڈل سامنے آیا ہے، آٹے کا بحران سامنے آنے کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے بیانات اور الزامات سامنے آئے تھے، لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ ہماری پوری توجہ کورونا کی طرف ہونی چاہیے۔”رپورٹ سامنے آنے کے بعد وزیر اعظم نے کچھ وزرا کے قلمدان تبدیل کیے، موجودہ حکومت کی کابینہ میں پہلی بار رد وبدل بھی کچھ وزرا پر الزامات کے بعد ہوئی لیکن نہ کوئی احتساب ہوا نہ تحقیقات ہوئی نہ کسی کو ذمہ دار قرار دیا گیا، پی ٹی آئی والے دوسری کسی جماعت کے حوالے سے ایسی کوئی رپورٹ سامنے آنے کے بعد تحقیقات سے پہلے الزامات عائد کرنا شروع کردی ہیں۔’ رپورٹ سامنے آنے کے بعد وزیر اعظم کے استعفے کے مطالبے پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ‘اگر اپوزیشن جماعتیں ان کے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہیں تو یہ مطالبہ ویسے ہی ہے جیسے عمران خان کرتے تھے، وہ بھی صرف الزامات پر ایسے مطالبات کرتے تھے، جب جعلی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ سامنے آئی اس وہ کہتے تھے کہ وزیر اعلیٰ سندھ سمیت پیپلز پارٹی کے تمام اراکین کو جیلوں میں ڈالنا چاہیے۔’ ان کا کہنا تھا کہ ‘اپوزیشن جماعتوں کا وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ اسی معیار کے مطابق ہے جو عمران خان اور پی ٹی آئی نے دیگر جماعتوں کے لیے طے کیا ہے۔’
‘لاک ڈاؤن کا دورانیہ صرف وائرس کی صورتحال طے کرے گی’
کورونا وائرس کے خلاف سندھ حکومت اور وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے کردار کو سراہتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ‘جہاں امریکا اور اٹلی جیسے ترقی یافتہ اور جدید ٹیکنالوجی کے حامل ممالک کو بھی وائرس سے مقابلہ کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے، وہیں سندھ حکومت اپنے محدود کو استعمال کرتے ہوئے اس کا مقابلہ کر رہی ہے لیکن صوبائی یا مقامی حکومت عالمی وبا کا تنہا مقابلہ نہیں کر سکتی اس میں وفاقی حکومت کو صف اول کا کردار ادا کرنا پڑے گا اور ہر صوبائی حکومت کی مدد کرنی پڑے گی۔’انہوں نے کہا کہ ‘وفاقی حکومت اس وقت صوبائی حکومتوں کی اس طرح مدد نہیں کر رہی جس طرح اسے کرنی چاہیے، ریلیف پیکج کا اعلان کیا گیا لیکن اس کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں اور مجموعی طور پر وفاق کی ترجیحات غلط لگ رہی ہیں۔’ لاک ڈاؤن کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے اس میں دیر کی، پھر ہم نے جب لاک ڈاؤن شروع کیا تو پورا وقت اس میں گزارا کہ لاک ڈاؤن کا مطلب کیا ہے، سندھ حکومت کی پوری توجہ اپنی صلاحیت بڑھانے اور اس طرف ہے کہ غریب طبقے کو کیسے ریلیف پہنچایا جائے۔’ لاک ڈاؤن کے دورانیے سے متعلق بلاول نے کہا کہ ‘یہ ٹائم لائن نہ وزیر اعظم اور نہ وزیر اعلیٰ سندھ طے کریں گے، یہ ٹائم لائن وائرس کی صورتحال طے کرے گی، میرے خیال میں جس طرح کا لاک ڈاؤن ہونا چاہیے تھا اب تک نہیں ہوا ہے اور لاک ڈاؤن کی کامیابی کے لیے ہر صوبائی حکومت کو وفاقی حکومت کی بھرپور مدد کی ضرورت ہے۔’ نیب کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ‘نیب کو ہمیشہ سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا گیا، اس حکومت کے خلاف جو بھی بیان دیتا ہے نیب کو اس کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے، لیکن بیورو کے پاس ایسا کوئی جواز نہیں تھا جس کی بنیاد پر وہ مجھے گرفتار کرتا۔’